Topics
دین کو پھیلانے کے لئے ہمیشہ دو طریقے رائج رہے ہیں۔
ایک
طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے اور حسن
اخلاق سے اس کو اپنی طرف مائل کیا جائے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اس کی
پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر تدارک کیا جائے۔
دوسرا
طریقہ یہ ہے کہ تحریر و تقریر سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جائے۔ موجودہ دور
تحریر و تقریر کا دور ہے۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں، زمین کا پھیلاؤ ایک گلوب (GLOBE) میں بند ہو گیا ہے۔ آواز کے نقطۂ نظر سے امریکہ اور کراچی کا
فاصلہ ایک کمرہ سے بھی کم ہو گیا ہے۔ کراچی میں بیٹھ کر لندن، امریکہ کی سرزمین پر
اپنا پیغام پہنچا دینا روزمرہ کا معمول ہو گیا ہے۔ یہی صورت حال تحریر کی ہے۔
نشر
و اشاعت کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ امریکہ یا دور دراز کسی ملک میں ٹائپ ہونے والی
تحریر کراچی یا اسلام آباد میں اس طرح پڑھی جاتی ہے کہ جیسے کراچی میں ہی لکھی جا
رہی ہے۔ تحریر قاری کے اوپر ایک تاثر چھوڑ دیتی ہے ایسا تاثر جو ذہن کے اندر فکر و
فہم کی تخم ریزی کرتا ہے اور پھر یہی فکر و فہم ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔
اپنی
تحریرو تقریر میں ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کیجئے۔ الفاظ کی نشست و برخاست
ایسی ہو کہ سننے اور پڑھنے والے کے اوپر امیدوار تعلق خاطر کی کیفیت طاری ہو جائے۔
خوف کو درمیان میں نہ لائے کہ خوف پر مبالغہ آمیز زوردینے سے بندہ خدا کی رحمت سے
مایوس ہو جاتا ہے اور اسے اپنی اصلاح او رنجات نہ صرف مشکل بلکہ محال نظر آنے لگتی
ہے۔ تحریر میں ایسے الفاظ استعمال کیجئے جن میں رجائیت ہو، خدا سے محبت کرنے کا
ایسا تصور پیش کیجئے کہ خوف کی جگہ ادب و احترام ہو تا کہ وہ خدا کی رحمت اور بخشش
کو اس کے پورے ادب و احترام کے ساتھ قبول کرے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
’’بہترین
عالم وہ ہے جو لوگوں کو ایسے انداز سے خدا کی طرف دعوت دیتا ہے کہ خدا سے بندے
مایوس نہیں ہوتے اور نہ ہی خدا کا ایسا تصور پیش کرتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی کی
سزا سے بے خوف ہو جائیں۔‘‘
دین
کی دعوت اور روحانی علوم کی اشاعت کے لئے تھوڑا کام کیجئے مگر مسلسل کیجئے۔ لوگوں
کو روحانی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی دعوت دیجئے اور اس راہ میں پیش آنے والی
مشکلات اور تکالیف اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کیجئے۔ نبئ کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کا ارشاد عالی مقام ہے:
’’بہترین
عمل وہ ہے جو مسلسل کیا جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔