Topics

ہاتفِ غیبی

کائنات ایک اجتماعی فہم رکھتی ہے۔ ہر ذرے، ستارے، سیارے، چرند پرند، حیوان، انسان، جنات اور فرشتے، سب کو زندگی کی تحریکات ایک ایسے شعور سے ملتی ہیں جو اپنے اندر کائنات کی معلومات کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔ دور جدید کی زبان میں اس کی مثال ایک ایسے کمپیوٹر کی ہے جس میں کائنات کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔

مراقبہ کے ذریعے اس شعور سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس شعور سے رابطے کا ایک ذریعہ آواز ہے۔ اس آواز کو اصطلاحاً ہاتف غیبی کہتے ہیں۔ جس کے معنی ’’غیب کا پکارنے والا‘‘ ہیں۔ یہ آواز کائنات میں ہر وقت دور کرتی رہتی ہے اور کوئی شخص جس کا ذہن مرکزیت قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آلائش سے پاک ہے، متوجہ ہو کر اسے سن سکتا ہے۔ سوال کرے تو جواب پا سکتا ہے۔

کائنات میں سب سے پہلے آواز کا ظہور ہوتا ہے۔ انسانی حواس میں سب سے پہلے سماعت کا مظاہرہ ہوتا ہے، سماعت حرکت میں آتی ہے تو سماعت کے ساتھ ہی بصارت کا ایک نقطہ ٹھہراؤ قرار پاتا ہے اور کوئی شخص آواز میں موجود علم کو دیکھتا ہے۔ اس کے بعد شامہ اور لامسہ کی حسین ترتیب پاتی ہیں۔ اس مرحلہ پر دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ گویا انسان جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہ آواز کی توسیعی شکلیں اور اضافی تشریحات ہیں۔

قرآن پاک کے مصداق سب سے پہلے ’’کن‘‘ کی صدا بلند ہوئی اور کائنات پوری تفصیلات کے ساتھ ظہور میں آ گئی۔ لیکن مخلوق کو اس وقت تک حواس حاصل نہیں ہوئے تھے۔ خالق نے مخلوق کو مخاطب کیا اور کہا۔

’’کیا نہیں ہوں میں رب تمہارا؟‘‘

اس آواز نے مخلوق کو نگاہ عطا کی اور بصارت کی قوت عمل میں آ گئی۔ بصارت کے ساتھ ہی دوسرے حواس متحرک ہو گئے اور مخلوق نے دیکھ اور سمجھ کر اقرار کیا کہ بے شک آپ ہی ہمارے پیدا کرنے والے ہیں۔

تمام مذاہب آواز کو اولیت دیتے ہیں۔ انجیل میں درج ہے کہ:

’’خدا نے کہا، روشنی ہو جائے اور روشنی ہو گئی۔‘‘

ہندو مذہب میں ’’اوم‘‘ کی آواز کو سب سے مقدس خیال کیا جاتا ہے۔ ہندو فقراء کہتے ہیں کہ آکاش اور دھرتی اور اس کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اوم کی بازگشت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کائنات میں ایک آواز مسلسل دور کر رہی ہے۔ اس آواز کا نام وہ ’’آکاش وانی‘‘ یعنی آسمانی صدا رکھتے ہیں۔ صوفیاء بھی ایک غیبی آواز کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جو ’’صوت سرمدی‘‘ یعنی خدائی آواز کہلاتی ہے۔ اسی آواز سے اولیاء اللہ پر الہام ہوتا ہے۔




ہاتف غیبی سننے کا طریقہ یہ ہے:

* مراقبہ کی نشست میں بیٹھ کر دونوں کانوں کے سوراخ کو روئی کے پھوئے سے بند کر دیا جائے۔

* اب اپنے باطن کی طرف متوجہ ہو کر ایک ایسی آواز کا تصور کیا جائے جو مندرجہ ذیل کسی آواز سے مشابہت رکھتی ہو۔

1۔ میٹھی اور سریلی گھنٹیوں کی آواز

2۔ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ

3۔ پانی کے جھرنے کی آواز یعنی وہ آواز جو پانی کی سطح پر پانی کے گرنے یا پتھروں پر پانی کے گرنے سے پیدا ہوتی 

ہے۔

4۔ بانسری کی آواز : صاحب مراقبہ جب مسلسل اس آواز پر دھیان مرکوز رکھتا ہے تو کان میں آواز آنے لگتی ہے۔ آواز مختلف انداز اور طرزوں میں سنائی دیتی ہے۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ آواز میں الفاظ اور جملے بھی سنائی دیتے ہیں۔ آواز کے ذریعے صاحب مراقبہ پر اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں۔ 

غیبی واقعات کا کشف اور عالم بالا سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ جب صاحب مراقبہ مشق میں مہارت حاصل کر لیتا ہے تو غیبی آواز سے گفتگو کی نوبت آ جاتی ہے اور وہ آواز سے سوال جواب بھی کرتا ہے۔

ہاتف غیبی سے سوال کا طریقہ یہ ہے:

جب کوئی شخص اس قابل ہو جاتا ہے کہ ہاتف غیبی کو سن سکے تو از خود سوال کرنے اور جواب حاصل کرنے کی صلاحیت بھی اس کے اندربیدار ہو جاتی ہے۔ تاہم عملی طور پر اس کا طریقہ یہ ہے:

* جو بات پوچھنی ہو اس کو ذہن میں ایک دو بار دہرائیں۔

* پھر مراقبہ کی حالت میں بیٹھ کر ہاتف غیبی کی طرف توجہ کریں اور مسلسل دھیان قائم رکھیں۔

* اس وقت سوال کو ذہن میں نہ لائیں صرف توجہ ہاتف غیبی کی طرف مرکوز رکھیں۔

* ذہنی یکسوئی اور دماغی طاقت کی مناسبت سے جلد ہی آواز کے ذریعہ جواب ذہن میں آ جاتا ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔