Topics

مراقبہ موت

انسان کی زندگی مادی جسم کے فنا ہونے کے بعد ختم نہیں ہوتی۔ انسانی انا موت کے بعد مادی جسم کو خیر باد کہہ کر روشنی کا بنا ہوا جسم اختیار کر لیتی ہے اور روشنی کے جسم کے ذریعے اس کی حرکات جاری رہتی ہیں۔ اس کی مثال خواب کی حالت ہے۔ خواب میں مادی حواس روشنی کی دنیا میں کام کرنے والے حواس سے مغلوب ہو جاتے ہیں لیکن ختم نہیں ہوتے۔ اس وقت ہماری کیفیات موت سے مشابہت رکھتی ہیں۔ لیکن جب مادی جسم کے حواس پر روشنی کے جسم کے حواس کا اس طرح غلبہ ہو جائے کہ مادی حواس کا روشنی کے حواس پر دوبارہ غالب آنا ممکن نہ ہو تو مادی جسم تعطل کا شکار ہو کر بیکار ہو جاتا ہے اسی کا نام موت ہے۔

بیداری میں مادی حواس کو وقتی طور پر مغلوب کر کے روشنی کے حواس کو خود پر طاری کر لینے کے لئے مراقبہ موت کیا جاتا ہے۔ مراقبہ موت کی مشق میں مہارت حاصل کر لینے کے بعد کوئی شخص جب چاہتا ہے مادی حواس کو مغلوب کر کے روشنی کے حواس غالب کر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے مادی حواس میں واپس آ جاتا ہے۔ 

محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:

’’مر جاؤ مرنے سے پہلے۔‘‘

حدیث شریف میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے مادی ھواس کو اس طرح مغلوب کر لیا جائے کہ آدمی موت کے حوا س سے واقفیت ہو جائے یعنی وہ مادی حواس میں رہتے ہوئے موت کے بعد کی دنیا کا مشاہدہ کر لے۔

اعراف:

کسی آرام دہ جگہ پشت کے بل لیٹ جائیں۔ پھر جسم کے ہر حصہ پر یکے بعد دیگرے توجہ مرکوز کر کے Relaxکریں۔ تصور کریں کہ آپ روشنی کے جسم کے ذریعے فضا میں اڑتے ہوئے اس عالم کی طرف جا رہے ہیں جو موت کے بعد کا عالم ہے، رفتہ رفتہ روشنی کا جسم جس کو جسم مثالی بھی کہتے ہیں، متحرک ہو کر اس دنیا کی سیر کرنے لگتا ہے جس میں انسان مرنے کے بعد رہتا ہے اور مادی تقاضے پورے کرتا ہے۔

آئیے!

موت کے بعد کی زندگی کا کھوج لگاتے ہیں؟

دوزانو بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ منہ بند کر کے ناک کے دونوں سوراخوں سے گہرائی میں سانس لے کر سینے میں روک لیں۔ جب تک آسانی کے ساتھ برداشت کر سکیں سانس روکے رہیں اور پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ بہت آہستہ سانس باہر نکالیں۔ قبر کی گہرائی کا تصور کر کے روحانی طو رپر قبر کے اندر اتر جایئے۔ بس ٹھیک ہے اب ہم قبر کے اندر ہیں۔ مٹی اور کافور کی ملی جلی خوشبو دماغ میں بس گئی ہے۔ یہاں آکسیجن اتنی کم ہے کہ دم گھٹ رہا ہے۔ آنکھیں بوجھل اور خمار آلود ہو گئی ہیں۔ پپوٹے ساکت ہیں پلک جھپکنے کا عمل ختم ہو گیا ہے۔ یہ دیکھئے! نظر ایک جگہ قائم ہو گئی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اسپرنگ کی طرح چھوٹے چھوٹے دائرے اور بڑے بڑے دائرے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ’’یا بدیع العجائب‘‘ منظر کس قدر خوش رنگ اور حسین ہے۔ یہ ایک دم گھپ اندھیرا کیسے ہو گیا؟ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔

وہ دیکھو!

سامنے دور بہت دور تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر خلاء میں روشنی نظر آ رہی ہے ذرا س طرف دیکھئے! یہ دروازہ ہے چلیے اندر چلتے ہیں۔

کیا خوب! یہاں تو پورا شہر آباد ہے۔ بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ لکھوری اینٹوں کے مکان اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان بھی ہیں۔ 

ھوبی گھاٹ بھی ہے اور ندی نالے بھی۔ جنگل بیابان بھی ہیں اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوے درخت اور باغات بھی۔ یہ ایک ایسی بستی ہے جس میں محلات کے ساتھ ساتھ پتھر کے زمانے کے غاروں میں رہنے والے آدم زاد بھی مقیم ہیں۔

ادھر دیکھئے! کتنا گہرا اور اندھیرا غار ہے۔ آیئے جھانک کر دیکھیں اس کے اندر کیا ہے حیرت ہے اس کے اندر تو آدم زاد اور ان کے خاندان کے لوگوں کی روحیں آرام کر رہی ہیں۔

کس قدر شرم کی بات ہے کہ ماورائی دنیا کے اس خطہ میں سب لوگ ننگے ہیں اور انہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ستر پوشی بھی کوئی ضروری عمل ہے۔ یہ لباس سے آزاد لوگ ہمیں اس طرح گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، ذرا ان کے قریب تو چلیں۔

ایک صاحب نے آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’آپ نے اپنے لطیف، نرم و نازک جسم پر یہ بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے؟ صورت شکل سے آپ ہماری نوع کے افراد نظر آتے ہیں۔‘‘

بہت بحث و تمحیض کے بعد معلوم ہوا کہ یہ اس زمانے کے مرے ہوئے لوگوں کی دنیا(اعراف) ہے جب زمین پر انسانوں کے لئے کوئی معاشرتی قانون رائج نہیں ہوا تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں ستر پوشی کا کوئی تصور نہیں تھا۔

عظیم الشان شہر:

یہ اس قدر عظیم الشان شہر جس کی آبادی اربوں کھربوں سے متجاوز ہے، لاکھوں کروڑوں سال سے آباد ہے۔ اس شہر میں گھوم کر لاکھوں سال کی تہذیب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو آگ کے استعمال سے واقف نہیں اور ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو پتھر کے زمانے کے لوگ کہے جاتے ہیں۔ اس عظیم الشان شہر میں ایسی بستیاں بھی موجود ہیں جس میں آج کیسائنس سے بہت زیادہ ترقی یافتہ قومیں رہتی ہیں۔ جنہوں نے اس ترقی یافتہ زمانے سے زیادہ طاقتور ہوائی جہاز اور میزائل بنائے تھے۔ امتداد زمانہ نے جن کا نام اڑن کھٹولے وغیرہ رکھ دیا۔ اس شہر میں ایسی دانشور قوم آباد ہے جس نے ایسے فارمولے ایجاد کر لئے تھے جس سے کشش ثقل ختم ہو جاتی ہے اور ہزاروں ٹن وزنی چٹان کا وزن پروں سے بھرے ہوئے تکیہ سے کم ہو جاتا ہے۔ اس لاکھوں سال پرانے شہر میں ایسی قومیں بھی محو استراحت یا مبتلائے رنج وآلام ہیں جنہوں نے ٹائم اسپیس کو Lessکر دیا تھا اور زمین پر رہتے ہوئے اس بات سے واقف ہو گئے تھے کہ آسمان پر فرشتے کیا کام کر رہے ہیں اور زمین پر کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنی ایجادات کی مدد سے ہواؤں کا رخ پھیر دیتے تھے اور طوفان کے جوش کو جھاگ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ اسی خطہ ماورائی زمین میں ایسے قدسی نفس لوگ بھی موجود ہیں جو جنت میں اللہ کے مہمان ہیں اور ایسے شقی بھی جن کا مقدر دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔

یہاں کھیت کھلیان بھی ہیں اور بازار بھی۔ ایسے کھیت کھلیان جن میں کھیتی تو ہو سکتی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ ایسے بازار ہیں جن میں دکانیں تو ہیں لیکن خریدار کوئی نہیں۔

چلئے! اس بازار میں چلتے ہیں۔

کاروبار:

ایک صاحب دکان لگائے بیٹھے ہیں اور طرح طرح کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں ان میں سامان وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ کتنا اداس اور پریشان ہے یہ شخص۔ پوچھا۔ ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ کہا۔ ’’میں اس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے پانچ سو سال بیٹھے ہوئے ہو گئے ہیں۔ میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا ہے۔‘‘ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شخص دنیا میں سرمایہ دار تھا۔ منافع خوری اور چور بازاری اس کا پیشہ تھا۔

برابر کی دکان میں ایک اورآدمی بیٹھا ہوا ہے بوڑھا آدمی ہے۔ بال بالکل خشک الجھے ہوئے ، چہرے پر وحشت اور گھبراہٹ ہے۔ سامنے کاغذ اور حساب کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ قلم لئے رقموں کی میزان دے رہے ہیں اور جب رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو بلند آواز سے اعداد گنتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’دو اور دو سات، سات اور دو دس، دس اور دس انیس۔‘‘ اس طرح پوری میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تا کہ اطمینان ہو جائے اب اس طرح میزان دیتے ہیں۔ ’’ دو اور تین پانچ، پانچ اور پانچ سات، سات اور نو بارہ۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ کرتے ہیں تو میزان غلط ہوتی ہے اور جب دیکھتے ہیں کہ رقموں کا جوڑ صحیح نہیں ہے تو وحشت میں چیختے چلاتے ہیں۔ بال نوچتے ہیں اور خود کو کوستے ہیں۔ بڑبڑاتے اور سر کو دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر دوبارہ میزان میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ بڑے میاں سے پوچھا۔’’جناب! آپ کیا کر رہے ہیں۔ کتنی مدت سے آپ اس پریشانی میں مبتلا ہیں۔‘‘

بڑے میاں نے غور سے دیکھا اور کہا۔ ’’میری حالت کیا ہے کچھ نہیں بتا سکتا، چاہتا ہوں کہ رقموں کی میزان صحیح ہو جائے مگر تین ہزار سال ہو گئے ہیں کم بخت یہ میزان صحیح ہونے میں نہیں آتی۔ اس لئے کہ میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا تھا بدمعاملگی میرا شعار تھا۔

علماء سو سے تعلق رکھنے والے ان صاحب سے ملیئے۔ داڑھی اتنی بڑی جیسے جھڑبیر کی جھاڑی۔ چلتے ہیں تو داڑھی کو اکٹھا کر کے کمر کے گر دلپیٹ لیتے ہیں، اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلنے میں داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ اٹھنے میں داڑھی پھر کھل جاتی ہے اور الجھ کر منہ کے بل گرتے ہیں۔ سوال کرنے پر انہوں نے بتایا۔ ’’ دنیا میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور داڑھی رکھنا میرے نزدیک بڑی نیکی تھی اس نیکی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک لوگوں سے اپنی مطلب برآری کر لیا کرتا تھا۔‘‘

وہ دیکھئے سامنے بستی سے باہر ایک صاحب زور، زور سے آواز لگا رہے ہیں۔ ’’اے لوگو! آؤ میں تمہیں اللہ کی بات سناتا ہوں۔ اے لوگو! آؤ اور سنو، اللہ تعالیٰ کیا کیا فرماتے ہیں۔‘‘ کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی ادھر آ نکلتی ہے۔

علمائے سوء:

’’ہاں سناؤ! اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں۔‘‘ ناصح فوراً کہتا ہے۔ ’’بہت دیر سے پیاسا ہوں، مجھے پہلے پانی پلاؤ، پھر بتاؤں گا اللہ تعالیٰ کیا کہتے ہیں۔‘‘ فرشتے کھولتے ہوئے پانی کا ایک گلاس منہ کو لگا دیتے ہیں۔ ہونٹ جل کر سیاہ ہو جاتے ہیں اور جب وہ پانی پینے سے انکار کرتا ہے تو فرشتے بھی ابلتا اور کھولتا ہوا پانی اس کے منہ پر انڈیل دیتے ہیں۔ ہنستے اور قہقہے لگاتے ہوئے بلند آواز سے کہتے ہیں۔ ’’مردود کہتا تھا آؤ اللہ کی بات سناؤں گا۔ دنیا میں بھی اللہ کے نام کو بطور کاروبار استعمال کرتا تھا۔ یہاں بھی یہی کر رہا ہے۔‘‘ جھلسے اور جلے ہوئے منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکلتی ہیں کہ انسان کو سننے کی تاب نہیں۔ چلئے، دور بہت دور بھاگ چلئے۔

لگائی بجھائی:

اس عظیم الشان شہر میں ایک تنگ اور تاریک گلی ہے۔ گلی کے اختتام پر کھیت اور جنگل ہیں۔ یہاں ایک مکان بنا ہوا ہے۔ مکان کیا ہے بس چار دیواری ہے اس مکان پر کسی ربڑ نما چیز کی جالی دار چھت پڑی ہوئی ہے۔ دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مکان میں صرف عورتیں ہیں، چھت اتنی سی ہے کہ آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔ ایک صاحبہ ٹانگیں پھیلائے بیٹھی ہیں۔ عجیب اور بڑی ہی عجیب بات ہے کہ ٹانگوں سے اوپر کے حصہ معمول کے مطابق اور ٹانگیں دس فٹ لمبی ہیں۔اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ان سے پوچھا۔ ’’محترمہ! یہ کیا معمہ ہے۔‘‘ بتایا کہ میں دنیائے فانی میں جب کسی کے گھر جاتی وہاں کی بات دوسری جگہ اور یہاں کی بات تیسری جگہ کلی پھندے لگا کر کرتی تھی۔ دنیا والے اسے لگائی بجھائی کہتے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں۔ ٹانگوں میں انگارے بھرے ہوئے ہیں۔ ہائے میں جل رہی ہوں اور کوئی نہیں جو مجھ پر ترس کھائے۔

غیبت:

چہرے پر ڈر اور خوف نمایاں، چھپتے چھپاتے دبے پاؤں یہ شخص ہاتھ میں چھری لئے جا رہا ہے۔ اف خدایا، اس نے سامنے کھڑے ہوئے آدمی کی پشت میں چھری گھونپ دی اور بہتے ہوئے خون کو کتے کی طرح زبان سے چاٹنے لگا۔ تازہ تازہ اور گاڑھا خون پیتے ہی قے ہو گئی۔ خون کی قے۔ نحیف اور نزار زندگی سے بیزار کراہتے ہوئے کہا۔ ’’ کاش عالم فانی میں یہ بات میری سمجھ میں آجاتی کہ غیبت کا انجام یہ ہوتا ہے۔‘‘


اونچی اونچی بلڈنگیں:

شکل وصورت میں انسان، ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیو۔ قد تقریباً 20فٹ، جسم بے انتہا چوڑا، قد کی لمبائی اور جسم کی چوڑائی کی وجہ سے کسی کمرے یا کسی گھر میں رہنا ناممکن۔بس ایک کام ہے کہ اضطراری حالت میں مکانوں کی چھت پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھوم رہے ہیں۔ بیٹھ نہیں سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے، ایک جگہ قیام کرنا بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اضطراری کیفیت میں اس چھت سے اس چھت پر اور اس چھت سے اس چھت پر مسلسل چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کبھی روتے ہیں اور کبھی بے قرار ہو کر اپنا سر پیٹتے ہیں۔

پوچھا۔’’یہ کیا تماشہ ہے یہ کس عمل کی پاداش ہے؟ آپ اس قدر غمگین اور پریشان حال کیوں ہیں۔‘‘

جواب دیا۔

’’میں نے دنیا میں یتیموں کا حق غصب کر کے بلڈنگیں بنائی تھیں۔ یہ وہی بلڈنگیں اور عمارتیں ہیں۔ آج ان کے دروازے میرے اوپر بند ہیں۔ لذیذ اور مرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور آگ بھر دی ہے۔ ہوا نے میرے جسم کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ گھر میں رہنے کا تصور میرے لئے انہونی بات بن گئی ہے۔ آہ! آہ یہ آگ مجھے جلا رہی ہے۔ میں جل رہا ہوں۔ بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی تمام راہیں ختم ہو گئی ہیں۔

آیئے! اب مرنے کے بعد زندگی کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔

ملک الموت:

مراقبہ موت میں دیکھا کہ کھیت کے کنارے ایک کچا کوٹھا بنا ہوا ہے۔ کوٹھے کے باہر چہار دیواری ہے۔ چہار دیواری کے اندر صحن ہے۔ صحن میں ایک گھنا درخت ہے۔ غالباً یہ درخت نیم کا ہے۔ اس درخت کے نیچے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا ایک عورت کھڑی ہے اور ایک صاحب سے الجھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تم میرے خاوند کو نہیں لے جا سکتے۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ عورت نے ’’ہائے‘‘ کہہ کر زور سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر مارے اور زار و قطار رونے لگی۔

میں آگے بڑھا اور پوچھا ’’کیا بات ہے؟ آپ اس عورت کو کیوں ہلکان کر رہے ہیں؟‘‘ ۔ان صاحب نے کہا۔ ’’مجھے غور سے دیکھو اور پہچانو کہ میں کون ہوں؟‘‘

میں نے وہیں کھڑے کھڑے آنکھیں بند کر لیں جیسے مراقبہ کرتے وقت بند کی جاتی ہیں اور ان صاحب کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ حضرت ملک الموت ہیں۔ میں نے بہت ادب سے سلام کیا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ حضرت عزرائیل ؑ نے مصافحہ کیا۔ جس وقت میں نے ان سے ہاتھ ملائے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی جھٹکے بھی لگے جن سے میں کئی کئی فٹ اوپر اچھل اچھل گیا۔ آنکھوں میں سے چنگاریاں نکلتی نظر آئیں۔

بہت ڈرتے ڈرتے اور تقریباً التجا کے سے انداز میں، میں نے پوچھا ’’اس عورت کے خاوند کا کیا معاملہ ہے؟‘‘


حضرت عزرائیل ؑ نے کہا۔ ’’یہ صاحب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ عورت ان کی بیوی ہے اور یہ بھی برگزیدہ بندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے پر حکم نازل فرمایا کہ اب تم دنیا چھوڑ دو۔ لیکن مجھے یہ ہدایت ہے کہ اگر ہمارا بندہ خود آنا چاہے تو روح قبض کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بندہ راضی برضا ہے اور اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے بیقرار ہے لیکن بیوی صاحبہ کا اصرار ہے کہ میں اپنے شوہر کو نہیں جانے دوں گی تاوقتیکہ ہم دونوں پر ایک ساتھ موت وارد ہو۔‘‘

اس احاطہ میں مٹی اور پھونس کے بنے ہوئے ایک کمرے کے اندر ملک الموت میرا ہاتھ پکڑ کر لے گئے۔ وہاں ایک خضر صورت بزرگ بھورے رنگ کے کمبل پر لیٹے ہوئے ہیں۔ یہ کمبل زمین پر بچھا ہوا ہے۔ سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا ہوا ہے، کہیں کہیں سے سلائی ادھڑی ہوئی ہے اس میں سے کھجور کے پتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ ان بزرگ کے سر کے نیچے رکھا ہوا ہے۔ داڑھی گول اور چھوٹی ہے۔ لمبا قد اور جسم بھرا ہوا، پیشانی کھلتی ہوئی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن۔ ایک بات جس کو میں نے خاص طور پر نوٹ کیا یہ تھی کہ پیشانی سے سورج کی طرح شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ان پر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ حضرت ملک الموت نے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔ ’’یا عبداللہ! السلام علیکم!‘‘

میں نے بھی ملک الموت کی تقلید میں ’’یا عبداللہ سلام علیک‘‘کہا۔

حضرت عبداللہ(غالباً ان کا نام عبداللہ ہی ہو گا) نے ملک الموت سے ارشاد فرمایا:

’’ہمارے خالق کا کیا حکم لائے ہو؟‘‘

ملک الموت نے دست بستہ عرض کیا۔’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔‘‘ حضرت ملک الموت دوزانو ہو کر ان بزرگ کے پاؤں کی طرف بیٹھ گئے۔ بزرگ نہایت آہستگی سے لیٹ گئے۔ جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس مقدس اور برگزیدہ ہستی کی روح پر فتوح اللہ تعالیٰ کے حضور پرواز کر گئی۔ فرشتہ آسمان میں پرواز کر گیا۔ اتنا اونچا، اتنا اونچا۔۔۔۔۔۔

مراقبہ نور:

روحانی علوم کے مطابق کائنات کی تخلیق کا بنیادی عنصر نور ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ:

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘

نور اس خاص روشنی کا نام ہے جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔ روشنی، لہریں، رنگ، ابعاد یہ سب نور کی گوناگوں صفات ہیں۔ نور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت ماضی اور مستقبل دونوں میں سفر کرتا ہے اور ماضی و حال کا ربط قائم رکھتا ہے۔ اگر یہ ربط قائم نہ رہے تو کائنات کا رشتہ ماضی سے منقطع ہو جائے گا اور وہ نابود ہو جائے گی۔ اس کی ایک مثال حافظہ ہے۔ ہم انفرادی اور نوعی طور پر ہر آن اور ہر لمحہ اپنے ماضی سے منسلک ہیں۔ جب ہم اپنے بچپن یا گزرے ہوئے کسی لمحہ کو یاد کرتے ہیں تو نور کے ذریعے ماضی حال میں وارد ہو جاتا ہے اور ہمیں بچپن کے واقعات یاد آ جاتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ جنات، ملائکہ اور دوسری مخلوقات کے حواس بھی نور پر قائم ہیں۔ روحانیت میں نور سے تعارف حاصل کرنے کے لئے مراقبہ نورکرایا جاتا ہے۔ مراقبہ نور کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے:

1۔ طالب علم تصور کرتا ہے کہ ساری کائنات اور اس کی مخلوقات نور کے وسیع و عریض سمندر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ وہ خود کو 

بھی نور کے سمندر میں ڈوبا ہوا تصور کرتا ہے۔

۔ عرش کے اوپر سے نور کا دھارا ساری دنیا پر برس رہا ہے۔ صاحب مراقبہ خود پر بھی نور برستا ہوا تصور کرتا ہے۔

3۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

’’اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس نور کی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ رکھا ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔‘‘ (سورہ نور)

روحانی طالب علم اس آیت میں دی گئی مثال کے مطابق تصور کرتا ہے کہ چراغ کی نورانی شعاعوں سے اس کا تمام جسم منور ہو رہا ہے۔

مذاہب عالم نے کسی نہ کسی طرح ایک نظر نہ آنے والی روشنی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایسی روشنی جو ساری روشنیوں کی اصل ہے اور تمام موجودات میں موجود ہے۔ انجیل میں درج ہے:

’’خدا نے کہا روشنی اور روشنی ہو گئی۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ نے وادی سینا میں سب سے پہلے جھاڑی میں روشنی کا مشاہدہ کیا اور اسی روشنی کی معرفت اللہ کے کلام سے مشرف ہوئے۔

ہندومت میں اس روشنی کا نام جوت ہے۔

روحانی علوم کے ہر مکتبہ فکر میں نور کا مراقبہ کیا جاتا ہے اور طریقہ کم و بیش وہی ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔