Topics

وحی کی حقیقت

سورہ آل عمران نمبر 66 : 

ترجمہ:’’یہ واقعات غیب کی خبروں میں سے ہیں۔ ہم وحی کرتے ہیں ان کی آپ کی طرف اور نہ تھے آپ ان کے پاس جب پھینک رہے تھے وہ (مجاور) اپنی قلمیں۔ کون سرپرستی کرے گا ان میں سے مریم کی۔ اور نہ تھے آپ ان کے پاس جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔‘‘

مذکورہ بالا آیت کی رو سے وحی کی تعریف یہ ہوئی کہ وحی منجانب اللہ ہوتی ہے۔ وحی وہ نور ہے جس کے اندر غیب کی خبریں ہوتی ہیں۔ یہ خبریں گذشتہ واقعات کی بھی ہو سکتی ہیں۔ اور آئندہ آنے والے واقعات کے خاکے بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ نے گزرے ہوئے واقعات اور آنے والے حالات دونوں ہی سے باخبر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وحی کے اندر کسی بندے کا شعور و ارادہ کام نہیں کرتا۔ بلکہ وحی کے اندر صرف اللہ تعالیٰ کا تفکر کام کرتا ہے۔سورۃ اعراف نمبر 203

ترجمہ:’’اور جب آپ نہیں لاتے ان کے پاس کوئی آیت تو کہتے ہیں۔ کیوں نہ بنا لیا، تم نے خود اسے۔ فرمایئے۔ میں تو اس کی پیروی کرتا ہوں۔ جو وحی کی جاتی ہے میری طرف میرے رب سے۔ یہ روشن دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہیں اس قوم کے لئے جو ایمان لاتی ہیں۔‘‘

وحی کی مزید وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے۔

سورہ الشوریٰ نمبر 51۔52

ترجمہ:’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ (براہ راست) مگر وحی کے طور پر یا پس پردہ یا بھیجے کوئی پیغمبر اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ بلاشبہ وہ اونچی شان والا بہت دانا ہے۔ اور اسی طرح ہم نے بذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے۔ نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے۔ اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو نور، ہم ہدایت دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔‘‘

اس آیت میں وحی کی تمام طرزوں کا بیان ہے۔ وحی کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام کہا ہے۔ اللہ کا کلام اپنی مخلوق پر مختلف ذرائع سے نازل ہوتا ہے۔ وحی کے طور پر یا پس پردہ۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تجلی کا نزول ہوا۔ کوہ طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی نازل فرمائی۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا۔ یہ طریقہ وحی وہ ہے جس کو پس پردہ یعنی حجاب میں کہا گیا ہے۔ ذات باری تعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ تجلی حجاب بن گئی کہ ذات باری تعالیٰ کو وہ نہ دیکھ سکے۔ بلکہ صرف حجاب کو دیکھا اور حجاب کے ذریعے کلام الٰہی سنا۔ پیغمبر کے ذریعے یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے وحی پیغمبروں تک پہنچائی گئی۔ پیغمبروں کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ مگر وحی کی ذیلی طرزیں کشف، الہام اور القاء کی صورت میں باقی ہیں۔ اسی کی طرف آیت بالا میں اشارہ ہے کہ کسی بشر کی یہ شان نہیں ہے۔ یہاں بشر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ رسول یا پیغمبر کا لفظ نہیں استعمال کیا گیا۔ یعنی ایک عام بشر بھی وحی کی ذیلی طرزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے کلام کو حاصل کر سکتا ہے۔ انہیں ذیلی طرزوں میں کشف، الہام اور القاء کے ساتھ ساتھ سچے خواب بھی شامل ہیں۔ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ نے مکھی پر وحی کرنے کا بیان کیا ہے۔ مکھی پر وحی بھی وحی کی ذیلی طرزوں میں سے ہے۔ جو پیغمبران علیہ السلام کے طریقہ نزول وحی سے مختلف ہے۔ نزول وحی کا وہ مخصوص طریقہ جس طریقے سے پیغمبران علیہ السلام پر وحی نازل کی جاتی تھی۔ پیغمبروں کے ساتھ ہی منقطع ہو چکا ہے۔ مگر پیغمبروں کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا کلام اس کا حکم اور اس کا تفکر اس کی مخلوق میں ضرور نازل ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہی وحی کی ذیلی طرزیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نور ہے۔ اس کا کلام بھی نور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جاں سے قریب ہونے کے باوجود بھی ہم اس کا ادراک اپنے شعوری حواس سے نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وحی جو کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا نور ہے۔ اس نور کو جذب کرنے کے لئے پہلے شعور میں سکت ہونا ضروری ہے۔ شعوری سکت کی بناء پر ہی وحی کی مختلف طرزیں وجود میں آئی ہیں۔ پیغمبران علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے براہ راست تربیت یافتہ ہیں۔ لہٰذا ان کے شعور میں اس قدر سکت تھی کہ وہ وحی کے انوار کو براہ راست اپنے لطیفہ قلبی کے اندر منتقل کرنے کی قوت رکھتے تھے۔ روح کے تمام لطائف وہ مرکزیتیں ہیں جن مراکز میں روشنیاں ذخیرہ ہوتی ہیں۔ لطیفہ قلبی اور نفسی کا دائرہ وہ ہے، جس مرکز کے اندر دنیاوی روشنیاں ذخیرہ رہتی ہیں۔ یعنی نارمل حالت میں یہ مرکز مادی روشنیوں کو ذخیرہ کرتے ہیں۔ مگر خاص حالتوں میں یہ مراکز نور اور تجلی کو جذب کرنے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔ ان کی سکت کو ارادے کے ساتھ بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب تک نور جذب کرنے کی سکت پیدا نہیں ہوتی۔ انوار منتقل نہیں ہوتے۔ ایک بھرے ہوئے گلاس میں مزید پانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ شعور میں جو روشنیاں منتقل ہوتی ہیں۔ وہ لاشعور سے آتی ہیں۔ لاشعور روح کا ادراک ہے۔ یہ ادراک نور اور تجلی میں کام کرتا ہے۔ گویا روح انسانی کے پاس نظر کے تین لینس(Lens) ہیں۔ ایک نظر مادی دنیا میں کام کرتی ہےدوسری نظر نور میں کام کرتی ہے۔ تیسری نظر  تجلی میں کام کرتی ہے۔ کائنات کے ان تینوں مقامات(Zones) میں عالمین آباد ہیں۔ ہر زون میں اسمائے الٰہیہ کے نظام جاری و ساری ہیں۔ اسمائے الٰہیہ کی تجلیوں کی معین مقداریں کائنات کے تمام نظام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہر زون میں تجلیوں کی مختلف مقداریں کام کر رہی ہیں۔ ان ہی مقداروں کے تعین سے کائناتی سسٹم قائم ہے اور کائناتی سسٹم فارمولوں سے مرکب ہے۔ یہ فارمولے تجلی کے لینس سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ نور کے لینس سے ان فارمولوں سے بنی ہوئی اشیاء کی باطنی اشکال دیکھی جا سکتی ہیں اور مادی لینس سے شئے کا ظاہری جسم سامنے آ جاتا ہے۔ اس طرح ایک شئے کا وجود تجلی، نور اور مادی تینوں عالمین میں پایا جاتا ہے۔ یعنی کائنات تین زون پر مشتمل ہے۔ ایک زون ہر وقت ہماری نظر کے سامنے رہتا ہے۔ جبکہ باقی دو زون نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔

جو زون نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ وہ ہمارا لاشعور ہے۔ لاشعور میں روح کی جو نظر کام کر رہی ہے اور روح کے پرتوں کے جو ادراک کام کر رہے ہیں۔ وہ ادراک مستقل شعور کو اطلاع دیتے رہتے ہیں۔ روح کا ہر پرت اللہ تعالیٰ کے حکم پر حرکت میں ہے ۔ چنانچہ اس حرکت کی اطلاع لاشعور سے شعور میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اسی کو غیب کی خبریں کہا گیا ہے۔ تجلی کے پرت سے جو خبریں شعور میں منتقل ہوتی ہیں۔ وہ وحی ہے۔ تجلی کے دائرے میں براہ راست تفکر سے کائنات کی نزولی حیثیت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ روح کو اللہ تعالیٰ نے تخلیقی علوم عطا فرمائے ہیں۔ تجلی جب روح کے لطائف سے گزرتی ہے۔ تو روح کی فکر اسے تخلیقی شکل میں ڈھال دیتی ہے۔ یہ صور ت نور اور روشنیوں میں ہوتی ہے اور پھر مادی جسم اختیار کر کے نظر کے سامنے آ جاتی ہے۔ جب لاشعور اور شعور دونوں کی رفتار ایک ہو جاتی ہے۔ یعنی روح کے تینوں دائرے بیک وقت حرکت میں آ جاتے ہیں۔ تو ان کا درمیانی فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔ تجلیوں کا نزول براہ راست شعور میں ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں تجلی کا شعور غالب آ جاتا ہے۔ اللہ کا تفکر غالب اور بندے کا شعور مغلوب ہو جاتا ہے۔ پیغمبروں کے اندر تجلی کا انتہائی لطیف ترین ادراک کام کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے تفکر کو اپنی روح کے ادراک کے ذریعے جان لیتے ہیں۔ ان کے اوپر روح کے لطیف حواس غالب آ جاتے ہیں اور مادی دنیا میں بھی وہ روح کے حواس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ تجلی درحقیقت اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی ذات کا عکس ہے۔ تجلی اللہ کا حجاب ہے۔ اس حجاب کے بغیر کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ نہ ہی کسی بشر کی رسائی ممکن ہے۔ کائنات اللہ کی تخلیق ہے۔ روح کی نظر ہر شئے کو تخلیقی صورت میں دیکھتی اور پہچانتی ہیں کیونکہ جب تک  کوئی شے تخلیقی  صورت نہیں اختیار کرتی اس کا نام اور اس کی شناخت نہیں ہو سکتی۔ روح امر ربی ہے۔ انسان کی روح اللہ کے امر کو سارے عالمین میں پھیلانے والی ہے۔ پہلے روح خود امر کی تجلیوں کی ماہیت حاصل کرتی ہے۔ جیسے کمپیوٹر میں پروگرام فیڈ کیا جائے تو مشین اس پروگرام کو تخلیقی صورت دے کر اسکرین پر نشر کردیتی ہے۔ پروگرام جو کمپیوٹر میں فیڈ کیا جاتا ہے۔ وہ محض نمبر اور الفاظ یعنی فارمولے کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس فارمولے کو کمپیوٹر کی اندرونی مشین تخلیقی صورت بخشتی ہے۔ اور پھر یہ صورت اسکرین پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس طرح ایک پوری شئے اپنی مکمل شکل و صورت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے۔ اللہ کی جانب سے جو تجلیاں روح پر نازل ہوتی ہیں اسے روح میں تجلی کا دائرہ اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ یہ تجلیاں اللہ کے تفکر کی متعین مقداریں ہیں۔ مقدار کائنات کا کوئی نہ کوئی فارمولا ہے۔ روح میں اس فارمولے کی ماہیت ظاہر ہوجاتی ہے۔ یعنی تخلیق کا باطن سامنے آ جاتا ہے۔ اس میں اسمائے الٰہیہ کی روشنیوں اور ان کی حرکات و نظام کی مکمل تفصیل ہے اور پھر روشنیوں کے دائرے میں شئے کا جسم تخلیق ہوتا ہے۔ یہ جسم اپنے اندر فیڈ کئے ہوئے پروگرام کے مطابق اپنی حرکات و افعال انجام دیتا ہے۔

وحی کی حقیقت یہ ہے کہ شعور میں براہ راست وہ تجلیاں نزول کرتی ہیں۔ جو تجلیاں اللہ کی جانب سے روح میں نازل ہوتی ہیں۔ روح ان تجلیوں کو اسی طرح شعور میں منتقل کر دیتی ہے۔ اور شعور ان تجلیات کے اندر تفکر کے ذریعہ معانی پہناتا ہے۔ وحی کے نزول کے وقت شعور کی رفتار لاشعور کے برابر ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وحی کے کلام میں دنیاوی خیال کی روشنی شامل نہیں ہوتی۔ پیغمبران علیہ السلام کے بعد اگرچہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ مگر علوم نبوت کے انوار دنیا میں موجود ہیں۔ اللہ کا کلام آسمانی کتابیں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ جب بھی کوئی بندہ پیغمبروں کی سنت پر چل کر ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتا ہے۔ ان علوم کے انوار اس کی روح میں ذخیرہ ہو جاتے ہیں۔ اللہ نے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے ان کے شعور کو اس حد تک بیدار کر دیا کہ وہ اپنی روح کی حرکات کو پہچان گئے۔ اور اپنی ذات کے ذریعے سے اللہ کی ذات و صفات کا عرفان حاصل کر لیا۔ پیغمبروں کی سنت پر جو کوئی بھی عمل کرتا ہے۔ اس کے اندر پیغمبروں کا تفکر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پیغمبروں کے وسیلے سے انہیں اللہ کے علوم حاصل ہو جاتے ہیں۔ اور وہ کائناتی سسٹم کی حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔