Topics

نظریہ توحید

ضمیر نور باطن ہے۔ نور باطن سے استفادہ کرنے کے لئے اللہ نے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں ہم جب شریعت پر غور کرتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر فکر کر کے کوئی نتیجہ اخذکرتے ہیں تو ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ نوع انسانی کی تخلیق کا اجمالی پہلو یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے۔ اللہ کو ایک جاننے کو توحید کہا گیا ہے توحید یا اللہ کو ایک ماننا اور اللہ کو بحیثیت خالق کے ایک جاننا انبیاء علیہم السلام پر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔ چونکہ انبیاء کو یہ کشف وحی کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے وہ جوکچھ کہتے ہیں ان فرمودات میں قیاس کو دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس انبیاء کے نہ ماننے والے فرقے توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے ہیں۔ جب سے آدم زاد برادری کا مادی وجود ظاہر ہوا ہے اس ہی وقت سے انسان کسی ایک طاقت کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے قیاس سے راہنمائی چاہتا ہے۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے ہمیشہ توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ ان کے قیاس نے غلط راہنمائی کر کے توحید کو غیر توحیدی نظریات بنا کر پیش کیا اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں سے متصادم ہوتے رہے۔ قیاس اور مفروضہ (Fiction) کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریے کا چند قدم تو ساتھ دے سکتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ خود قیاس کردہ نظریہ ہے۔ اس کو ماننے کے لئے کوئی حقیقت سامنے نہیں ہے۔ جب کہ انبیاء کا اعلان کردہ توحید کا نظریہ قیاس پر مبنی نہیں ہے۔ ہم جب نوع انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں اور نوع انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اس طرف توجہ دینی پڑے گی کہ نوع انسانی ایک کنبہ ہے۔ اس کنبہ کا ایک ایسا سرپرست ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

اس نظریہ پر نوع انسانی کو اکٹھا کرنے کے لئے ایک مکتبہ فکر پر جمع ہونا ضروری ہے۔ وہ نقطہ فکر یہ ہے کہ اللہ ایک ہستی  ہے جو نوع انسانی کی سرپرست ہے۔ جتنے بھی انبیاء ابتدائے آفرینش سے آخری نبی محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام تک مبعوث ہوئے ان سب نے توحید کا ہی درس دیا ہے۔ کسی نبی کی تعلیم ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے۔ اگر نوع انسانی ایک نقطے پر مرکوز ہو کر فلاح چاہتی ہے تو اسے انبیاء کی بتائی ہوئی توحید پر عمل کرنا ہو گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاء کی توحید کے نظریہ کے علاوہ آج تک جتنے بھی نظامہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظام فکر فنا ہو چکے ہیں ۔ یا رد و بدل کے ساتھ فنا کے راستے پر سرگرم عمل ہیں۔

آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا کہ نوع انسانی کو کسی نہ کسی طاقت میں نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ جس نقطہ توحید کو انبیاء نے متعارف کرایا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک اور قوموں میں زندگی کی طرزیں مختلف ہیں، لباس الگ اور جسمانی وظائف جداگانہ ہیں یہ بات کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ ہم جب جسمانی وظیفے سے ہٹ کر اپنے اندر دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ جسمانی وظائف الگ الگ ہونے کے باوجود نوع انسانی کے تمام افراد کا روحانی وظائف میں باہم اشتراک ہے۔ باہمی اشتراک یہ ہے کہ مخلوق ایک ہے اور مخلوق کی ضروریات پورا کرنے والا بھی ایک اللہ ہے۔ ذرا سا سوچنے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نوع انسانی کی جتنی ترقیاں ہیں، جتنے علوم کے مدارج ہیں ان سب کا تعلق اسی ایک ذات سے ہے ۔ کوئی علم اس وقت تک علم نہیں بن سکتا جب تک کوئی ذات ان علوم کو انسانی دماغ پر انسپائر(Inspire) نہ کرے۔ کوئی ترقی ممکن نہیں ہے جب تک اس دنیا میں کسی شئے کے اندر تفکر نہ کیا جائے۔ کوئی شئے موجود ہو گی تو ترقی ہو گی، موجود نہیں ہو گی تو ترقی نہیں ہو گی۔ نوع انسانی موجود ہو گی تو ارتقاء ہو گا ورنہ ارتقاء نہیں ہو گا۔ نوع انسانی کے دماغ میں کچھ کرنے اور بنانے کا خیال وارد نہ ہو تو کوئی ایجاد نہیں ہو سکتی۔ یہ وہ باہمی ربط ہے جو روحانی اعتبار سے تمام نوعوں میں اور تمام افراد میں ہمہ وقت متحرک ہے اور اس کا مخزن توحید اور صرف توحید ہے۔ دنیا کے مفکرین کو چاہئے کہ وہ جدوجہد کر کے غلط تعبیروں کو درست کریں۔ یہی وہ یقینی عمل ہے جس سے اقوام عالم کو ایک روحانی دائرے میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ یہ روحانی دائرہ آسمانی کتابوں اور قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ قرآن پاک کی بیان کردہ توحید میں داخل ہونے اور اس توحید کو اپنے اوپر جاری و ساری کرنے کے لئے تعصبات کو بالاے طاق رکھنا ہو گا۔ تفرقوں سے آزاد ہونا ہو گا۔ وہ وقت دور نہیں ہے کہ نوع انسانی مستقبل کے خوفناک تصادم سے وہ معاشی ہو یا نظریاتی مجبور ہو کر بقا کی تلاش کرے گی اور بقا کے ذرائع توحید کے سوا کسی نظام حکمت سے نہیں مل سکتے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔