Topics
مراقبہ کرتے ہوئے کسی کو دیکھا جائے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ یہ باتیں مراقبے کے جسمانی لوازمات ہیں یعنی مراقبہ کرتے ہوئے کس طرح بیٹھا جائے۔ ماحول کیسا ہونا چاہئے وغیرہ۔ مراقبہ کی اصل اس کا ذہنی پہلو ہے۔ موضوع کے پیش نظر ہم یہاں مراقبہ کے عملی پہلو بیان کریں گے۔ عملی پہلو سے مراد یہ ہے کہ مراقبہ کس طرح کیا جانا ہے اور مراقبہ کے لئے کن باتوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔
مراقبے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کر کے اپنے ذہن کو تمام خیالات اور تفکرات سے آزاد کر دے اور کسی ایک خیال یا تصور کی طرف اس طرح متوجہ ہو جائے کہ اس کی دلچسپی اور اس کا ذہنی رشتہ دوسرے تمام خیالات سے باقی نہ رہے۔ مراقبہ میں دو باتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک ذہن کا خالی ہونا اور دوسرا وہ تصور جو مراقبہ میں کیا جاتا ہے۔ ذہن میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی خیال میں خود کو نہ الجھائے اور نہ اپنے ارادے سے کسی چیز کے متعلق سوچے۔ اس کیفیت کو ایک طرح کی بے خیالی کہا جا سکتا ہے۔
مراقبہ مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے اور اس طرح مراقبے کی اقسام بن جاتی ہیں۔
مراقبے کی تعریف کے بعد اب ہم مراقبہ سے متعلق دوسری تفصیلات بیان کرتے ہیں۔
اندازِ نشست:
مراقبہ کے لئے آرام دہ اور پر سکون نشست ہونی چاہئے۔ تا کہ اعصاب میں کھنچاؤ نہ ہو اور جسم بے آرام نہ ہو۔
جسمانی ساخت اور طبعی رجحان کی مناسبت سے مراقبہ میں بیٹھنے کے لئے مندرجہ ذیل نشست میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
1۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھنا:
فرش یا چوکی پر بیٹھ کر بائیں پیر کو سمیٹ کر دائیں ران کے نیچے رکھ لیں اور دایاں پیر سمیٹ کر بائیں ران کے اوپر رکھ لیں۔ کمر اور ریڑھ کی ہڈی سیدھی رہے لیکن اتنا تناؤ نہ ہو کہ عضلات کھنچ جائیں اور اتنا خم نہ ہو کہ کمر جھک جائے۔ اس نشست میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیں۔ ہاتھوں کو گود میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔
2۔ دوزانو بیٹھنا:
جن لوگوں کو آلتی پالتی مار کر بیٹھنے میں مشکل ہو وہ نماز کی طرح دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں۔ اس نشست کے لئے بھی ضروری ہے کہ کمر میں نہ تو خم ہو اور نہ کمر تنی ہوئی ہو۔ بلکہ ایسی آرام دہ حالت ہونی چاہئے جس میں گردن اور کمر کے پٹھوں پر دباؤ نہ پڑے۔
3۔ دیگر انداز نشست:
ایک طریقہ یہ ہے کہ کولہوں کے بل بیٹھ کر دونوں پیروں کو سمیٹ کر کھڑا کر لیں اور دونوں ہاتھوں کو حلقہ بنا کر گھٹنوں کے اوپر رکھ لیں یا گھٹنوں کے گرد حلقہ بنا لیں۔ اس انداز میں اوپری دھڑ ذرا آگے کو جھکا ہوتا ہے۔ اس انداز نشست میں ایک عام شخص طویل وقفہ تک بغیر کسی جسمانی تکلیف کے مراقبہ کر سکتا ہے۔ اس انداز نشست کی ایک اور شکل اس طرح ہے:
دونوں کولہے فرش پر ٹکا کر بیٹھ جائیں اور پیروں کو اس طرح کھڑا کر لیں کہ بائیں پنڈلی دائیں پنڈلی کے اوپر ہو اور پاؤں کے تلوے فرش پر ٹکے ہوں۔ ایک نرم اور مضبوط کپڑا لے کر کمرکے پیچھے سے گزار کر گھٹنوں کے اس حلقے میں لے کر آگے کی طرف گرہ لگالیں۔ گرہ لگانے کے بعد جسم کو آزاد چھوڑ دیں۔ کپڑے کا قطر کتنا ہونا چاہئے اور کمر پر کس مقام پر رکھا جائے اس کا تعین خود کیا جا سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بیٹھنے میں کوئی جسمانی تکلیف نہ ہو۔ دونوں ہاتھوں کو پیروں کے برابر سے گزار کر ٹخنوں کے آگے رکھ لیں۔
مراقبہ کرسی پر بیٹھ کر بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے اور پشت سے ٹیک اس حد تک نہ لگے کہ نیند آ جائے۔
اسی انداز نشست میں چوکی، تخت یا صوفے پر بیٹھ کر بھی مراقبہ کیا جا سکتا ہے۔ چوکی یا تخت پر بیٹھنے کے بعد کوئی تکیہ گود میں رکھ کر اس پر ہاتھ رکھ لینے چاہئیں۔ تا کہ جسمانی سکون میں خلل نہ پڑے۔
بعض مراقبے پشت کے بل لیٹ کر بھی کئے جاتے ہیں۔ لیکن لیٹ کر مراقبہ کرنے میں خامی یہ ہے کہ ذہن پر نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے اور مراقبہ کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔
مراقبہ کھڑے ہو کر بھی کیا جاتا ہے اور بعض تصور ایسے ہوتے ہیں جو چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت کرائے جاتے ہیں۔ مراقبہ کے یہ انداز مستثنیات میں ہیں ورنہ بیشتر مراقبے بیٹھ کر کئے جاتے ہیں۔ بیٹھ کر مراقبہ کرنے میں آدمی آسانی کے ساتھ ذہنی یکسوئی حاصل کر لیتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔