Topics
ادراک گہرا ہو کر نگاہ بن جاتا ہے اور
باطنی اطلاعات تصویری خدوخال میں نگاہ کے سامنے آ جاتی ہیں۔ اس کیفیت کا نام ورود ہے۔ ورود اس وقت
شروع ہوتا ہے جب ذہنی یکسوئی کے ساتھ ساتھ غنودگی کا غلبہ کم سے کم ہو جائے۔ ذہنی
مرکزیت قائم ہوتے ہی باطنی نگاہ حرکت میں آ جاتی ہے۔ یکایک کوئی منظر نگاہ کے
سامنے آ جاتا ہے۔ چونکہ شعور اس طرح دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا اس لئے وقفہ وقفہ سے
ذہنی مرکزیت قائم ہوتی ہے اور پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ دیکھے ہوئے مناظر میں سے کچھ یاد
رہتے ہیں باقی بھول کے خانے میں جا پڑتے ہیں۔ رفتہ رفتہ آدمی ورود کی کیفیت کا
عادی ہو جاتا ہے اور مراقبہ میں واردات و مشاہدات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ کبھی
مشاہدات میں اتنی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے کہ آدمی خود کو واردات کا حصہ سمجھتا ہے۔
مشاہدات میں ترتیب قائم ہونے لگتی ہے اور معانی و مفہوم ذہن پر منکشف ہو جاتے ہیں۔
* پہلے کی نسبت اس ہفتہ مراقبہ کی کیفیات
اچھی رہیں۔ تصور گہرا قائم ہوا اور یکسوئی رہی۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ عبادت میں
یکسوئی پیدا ہو گئی ہے۔ آنکھیں ایک جگہ مرکوز ہوتی ہیں تو نظر جم جاتی ہے تصور اور
زیادہ گہرا ہو جاتا ہے اور باطنی آنکھ دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔ عبادت کرتے وقت
مقامات مقدسہ سامنے آجاتے ہیں۔ احساس کمتری سے بہت حد تک نجات مل گئی ہے،خود
اعتمادی اور یقین پیدا ہو گیا ہے۔ آج سارا دن ذہن بالکل یکسو رہا، جس طرف خیال
جاتا ہے وہ چیز یا منظر نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ ذہن نے Spaceکی اس حد تک نفی کر
دی ہے کہ ساری زمین اور ہر ملک ہر شہر چند قدم کے فاصلے پر نظر آتا ہے۔ کراچی،
لاہور، وغیرہ سب سامنے نظر آتے ہیں۔ ذہن میں ایک عجیب وسعت اور تیزی پیدا ہو گئی
ہے۔ (احسان اللہ۔ سوات)
* مراقبہ میں مختلف قسم کی
اشیاء نظر آتی ہیں اور اس کے ساتھ گرمی کا احساس بڑھ جاتا ہے اور پھر یہ سب ناقابل
برداشت ہو جاتا ہے اس وجہ سے مراقبہ کا وقت کم کرنا پڑتا ہے۔ مراقبہ میں دیکھا کہ
اپنے جسم سے کچھ دور ایک چمکدار روشنیوں سے بنا ہوا جسم ہے۔ جوں جوں تصور میں
گہرائی پیدا ہوتی گئی روشنیوں کے جسم کی چمک میں اضافہ ہوتا گیا۔ دل بھی روشنیوں
سے چمکتا ہوا نظر آیا۔ میں محسوس کرتا رہا کہ میرے ماتھے پر کوئی خوبصورت آنکھ ہے۔
دوران مراقبہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری پیشانی کی آنکھ روشن ہو گئی ہے اور
میں اس آنکھ سے دیکھ رہا ہوں۔ میں جس طرف بھی نظر دوڑاتا ہوں ہر چیز مختلف رنگوں
کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ (وقار احمد)
* مراقبہ کے دوران ذہنی
یکسوئی بڑھنے سے مادی جسم کا احساس نہ رہا اور جسم مثالی واضح ہونے لگا۔ ایسا محسوس
ہوا کہ جسم کے اندر کائنات موجود ہے۔ اور کمر کی جڑ سے برقی رو مسلسل خارج ہو کر
جسم میں گردش کر رہی ہے یکایک ایک جھٹکا لگا اور جسم مثالی مادی جسم سے الگ ہو
گیا۔ دیکھا کہ سامنے بہت بڑا خلاء ہے اور جسم لطیف لہروں کے دوش پر ہوا میں اڑ رہا
ہے۔ جسم مثالی سے ایک لہر شعاع کی طرح نکل رہی ہے جس کی روشنی سے خلاء میں ہر چیز
واضح نظر آتی ہے۔(محمد اسلم)
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔