Topics
مادے کے اندر تفکر کیا جاتا ہے تو مادی قوانین اور مادی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں۔ جب ہمارا ذہن مادے کی گہرائی میں جستجو کرتا ہے تو ایسی دنیا کا پتہ چلتا ہے جو مادیت کی بنیاد ہے۔ اس کو ہم لہروں کی دنیا یا روشنی کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے مادے کے اجزائے ترکیبی تلاش کئے تو ایٹم اور ایٹم کے ذرات سامنے آئے۔ ایٹمی ذرات میں الیکٹران کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ دوہری خصوصیات کا مالک ہے۔ ایک طرف مادی ذرہ ہے تو دوسری طرف لہر ہے۔ ایٹم کے اندر موجود لہروں کا نظام روشنی کی دنیا کا سراغ دیتا ہے چنانچہ ہم اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتے ہیں۔ وہ ایک طرف مادی تشخص رکھتا ہے اور دوسری طرف روشنی کا ہیولا ہے۔ روشنی کے ہیولے میں جو تحریکات پیدا ہوتی ہیں۔ اسی کے مطابق مادی تشخص میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ سائنسی اصول کے مطابق اگر الیکٹران اور پروٹون کی تعداد میں تبدیلی کر دی جائے۔ تو ایٹم اپنی ماہیت تبدیل کر دیتا ہے۔ نیوکلیائی عمل میں یورینیم عمل انشقاق کے بعد پلوٹونیم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گویا وہ ایٹمی ذرات جو لہروں کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں تبدیلی واقع ہو جائے تو عنصر شکل بدل لیتا ہے۔ روشنی کی دنیا میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو مادی تشخص میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ جس طرح ہر مادی وجود کے ساتھ برقی رو کا نظام کام کرتا ہے اسی طرح انسان کے اندر بھی برقی نظام کارفرما ہے۔ روحانی سائنس کے مطابق انسان محض گوشت پوست، ہڈیوں اور خون سے مرکب ایک پتلا نہیں بلکہ خاکی وجود کے اندر نوری جوہر بھی ہے اور یہی نوری جوہر اس کی اصل ہے۔ جوہر برقی رو یا کرنٹ ہے۔
جنریٹر:
انسان کے اندربنیادی طور پر تین جنریٹر کام کرتے ہیں۔ یہ جنریٹر تین طرح کے کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ ان تینوں کرنٹ کے مجموعے کا نام انسان ہے۔
مثال:
شمع یا شمع کی لو تین اجزاء کا مرکب ہے۔
1۔ شعلے کا رنگ
2۔شعلے کا اجالا اور
3۔ گرمی جو شمع کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔
جب ہم لفظ شمع کہتے ہیں تو اس سے مراد تینوں اجزاء کی اجتماعی شکل و صورت ہوتی ہے۔ ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی شمع کے وجود سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
شمع کی طرح انسان کے حواس بھی تین برقی رو کے تابع ہیں۔ تمام خیالات، تصورات اور احساسات، چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی، ٹھوس ہوں یا لطیف، برقی رو کی مختلف ترکیبوں سے تشکیل پاتے ہیں۔
ان تینوں جنریٹروں کو ایک مرکزی پاور اسٹیشن کنٹرول کرتا ہے۔ جسے امر، روح یا تجلی کہتے ہیں۔
جنریٹر نمبر 1سے پیدا ہونے والا کرنٹ نہایت لطیف اور تیز رفتار ہے اس کی قوت (Potential) بھی ناقابل بیان حد تک زیادہ ہے۔ یہ اپنی تیز رفتاری کی بناء پر ذہن کو کائنات کے تمام گوشوں سے منسلک رکھتا ہے۔ رفتار کے تیز ہونے کی وجہ سے اس کرنٹ کا عکس انسانی دماغ کی اسکرین پر بہت دھندلا پڑتا ہے۔ اس عکس کو واہمہ کہتے ہیں۔ تمام احساسات اور تمام علوم کی ابتداء واہمہ سے ہوتی ہے۔ لطیف ترین خیال کا نام واہمہ ہے جسے صرف ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ واہمہ گہرا ہو کر خیال بن جاتا ہے۔
جنریٹر نمبر 1سے پیدا ہونے والے کرنٹ کے دو حصے ہیں۔ ایک زیادہ طاقت کا حامل اور دوسرا کم طاقت رکھنے والا۔ ایک ہی برقی رو پہلے تیز رفتار ہوتی ہے او ربعد میں اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ طاقتور یا تیز رفتار کرنٹ کائنات کا شعور یا کائنات کا ریکارڈہے اور کم طاقت کا حامل کرنٹ واہمہ کہلاتا ہے۔
جنریٹر نمبر 2سے بھی دو طرح کی برقی رو پیدا ہوتی ہے ایک منفی اور دوسری مثبت۔ منفی لہر واہمہ میں داخل ہوتی ہے تو واہمہ خیال بن جاتا ہے۔ خیال واہمہ کی تفصیلی صورت ہے۔ لیکن یہ بھی نگاہ سے پوشیدہ رہتا ہے۔ خیال پر مثبت کرنٹ غالب آ جائے تو وہ تصور میں ڈھل جاتا ہے۔ خیال میں خدوخال پیدا ہو جائیں تو اسے تصور کہتے ہیں۔ تصور ایسا خاکہ ہے جسے نگاہ تو نہیں دیکھتی لیکن ذہن شکل و صورت کا احاطہ کر لیتا ہے۔
جنریٹر نمبر 3کی برقی رو کا کام احساسات کو گہرائی بخشتا ہے۔ یہ برقی رو موج کی شکل رکھتی ہے۔ یعنی اس کی ایک حرکت اوپر کی طرف اور دوسری نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ باالفاظ دیگر یہ دو حرکات، دو طرح کے احساسات ذہن کو عطا کرتی ہیں۔ اوپر کے رخ حرکت یا صعودی حرکت احساسات میں رنگینی ہے۔ اس حرکت میں تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی بے اختیار عمل کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔ نزولی حرکت یا نیچے کی حرکت عمل یا مظاہرہ ہے۔امر یا تجلی میں کائنات کا مجموعی علم ریکارڈ کی صورت میں موجود ہے۔ یہ ریکارڈ حرکت میں آ کر واہمہ بن جاتا ہے۔ اس حرکت کو کرنٹ نمبر1کہا گیا ہے۔
کرنٹ نمبر 2کی منفی لہر واہمہ کو خیال کی شکل و صورت عطا کرتی ہے اور خیال کے ذریعے تمام مخلوقات ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخلوقات میں تقاضے مشترک ہیں مثلاً بھوک، پیاس، رنج، غصہ، بقائے نسل کا جذبہ وغیرہ۔
کرنٹ نمبر 2کی مثبت لہر انسان کو اپنی نوع کے تصورات سے آشنا کرتی ہے۔
کرنٹ نمبر 3کا نزولی رخ احساسات میں ٹھوس پن ہے اور صعودی رخ احساسات میں رنگینی ہے۔ صعودی رخ میں آدمی کے تمام احساسات جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر کے زمان و مکان سے آزا دہو جاتے ہیں۔ نزولی رخ میں آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پاؤں کے ذریعے حواس کا مظاہرہ ہوتا ہے اور صعودی رخ میں بصارت، سماعت، گفتار اور لمس کی صلاحیتیں اعضاء کے بغیر کام کرتی ہیں۔
آدمی کے ذہن سے تینوں کرنٹ گزرتے ہیں اور وہ بیک وقت تینوں کیفیات میں سفر کرتا ہے لیکن جس کرنٹ کا عکس ذہن کی اسکرین پر گہرا ہوتا ہے، آدمی اسی کی خصوصیات میں خود کو متحرک دیکھتا ہے۔ اگر کرنٹ نمبر 3پر کرنٹ نمبر2یا کرنٹ نمبر1کا (Sensation) غالب آ جائے تو آدمی تصور، خیال اور واہمہ کی رفتار سے سفر کرنے لگتا ہے اور یہ تمام مخفی اطلاعات تصویری فلم کی صورت میں سامنے آجاتی ہیں۔
مراقبہ کی مشق سے کرنٹ نمبر 2اور کرنٹ نمبر3کی طاقت بڑھنے لگتی ہے۔ طاقت بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ دماغ کا رسیور ان اطلاعات کو زیادہ بہتر وصول کرنے لگتا ہے۔
تین کرنٹ:
ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ انسان کے اندر تین برقی کرنٹ کام کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انسان کے اندر جو صلاحیتیں کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ یہ تینوں کرنٹ محسوسات کے تین ہیولے ہیں اور ہر ہیولا مکمل تشخص رکھتا ہے۔ ہر کرنٹ سے انسان کا ایک جسم وجود میں آتا ہے۔ اس طرح آدمی کے تین وجود ہیں یا آدمی تین جسم رکھتا ہے۔ مادی جسم، روشنی کا بنا ہوا جسم اور نور سے بنا ہوا جسم۔ یہ تینوں جسم بیک وقت متحرک رہتے ہیں۔ لیکن مادی جسم (شعور) صرف مادی حرکات کا علم رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر مادی جسم کے اندر لاتعداد افعال واقع ہوتے رہتے ہیں۔ پھیپھڑے ہوا کھینچتے ہیں، جگر کے اندر ہزار تعاملات برسر عمل رہتے ہیں، دماغ کے اندر برقی رو کے ذریعے حیران کن کرشمہ جاری رہتا ہے۔ پرانے خلیات فنا ہوتے ہیں نئے خلیات بنتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اعمال کو ہمارا شعور محسوس نہیں کرتا اور نہ ہمارا شعوری ارادہ ان کو کنٹرول کرتا ہے۔ شعوری ارادے کے بغیر یہ اعمال خود بخود ایک ترتیب سے واقع ہوتے ہیں۔ ہمارے اندر روشنی اور نور کے جسم بھی کام کرتے ہیں۔ لیکن شعور انہیں محسوس نہیں کرتا۔ صرف خواب یا مراقبے کی کیفیات ایسی ہیں جن میں ہمیں روشنی کے جسم کا احساس ہوتا ہے۔ ان کیفیات میں ہمارا مادی جسم معطل رہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم زندگی کا ہر فعل انجام دیتے ہیں۔
اس کیفیت میں روشنی کا جسم حرکت کرتا ہے۔ اس جسم کو ہیولا، جسم مثالی بھی کہتے ہیں۔ اگر خیال کی قوت کو بڑھایا جائے تو جسم مثالی کی حرکات سامنے آ جاتی ہیں۔ اور ہم جسم مثالی کو ارادے کے تحت استعمال کر سکتے ہیں۔ جسم مثالی کی رفتار مادی جسم سے ساٹھ ہزار گناہ زیادہ ہے۔ خواب میں نور کا جسم بھی متحرک ہو جاتا ہے لیکن رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم نورانی واردات کو یاد نہیں رکھ پاتے نور کا جسم روشنی کے جسم سے ہزاروں گنا تیز سفر کرتا ہے۔ اگر خیال کی طاقت میں مطلوبہ اضافہ ہو جائے تو آدمی نور کے جسم سے متعارف ہو جاتا ہے۔
روحانی لوگ مراقبہ پر عبور حاصل کر کے روشنی اور نور دونوں میں سفر کرتے ہیں۔ مراقبے کے ذریعے آدمی کی شعوری کیفیات روشنی کے جسم میں تحلیل ہو جاتی ہیں اور آدمی روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگتا ہے۔ اسے وہ باتیں معلوم ہو جاتی ہیں جو روشنی کے اندر موجود ہیں۔ یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ یہاں روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جو ہمیں نظر آتی ہے بلکہ یہ اس روشنی کا تذکرہ ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ اسی طرح جب شعوری کیفیات نورانی دنیا میں جذب ہو جاتی ہیں تو نور کا جسم برسر عمل آ جاتا ہے۔ اس وقت آدمی نور کی شعاعوں کے ذریعے زمانیت اور مکانیت کو طے کرنے لگتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔