Topics

تیسری آنکھ

مادی حواس یا شعوری حواس میں ہم گوشت پوست کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اگر آنکھیں بند کر لی جائیں تو وہ اطلاعات جو روشنی کے ذریعہ پردہ بصارت تک پہنچتی ہیں، رک جاتی ہیں اور کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ مادی آنکھ کا عمل ہے جسے ظاہری بینائی بھی کہا جاتا ہے۔

عام طور سے مشہور ہے کہ ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دیکھنے کے لئے صرف آنکھوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر اعصاب کا وہ نظام حذف کر دیا جائے، جو بصارت کے پردے سے اطلاع کو دماغ تک پہنچاتا ہے۔ تو آنکھ کے موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بصارت کے میکانزم میں آنکھیں جزو ہیں کل نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص سویا ہوا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن وہ ماحول کی چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ آنکھیں اور دماغ کا اعصابی نظام سب کچھ موجود ہوتا ہے پھر بھی اسے کچھ نظر نہیں آتا۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیکھنے کے لئے ذہن کا متوجہ ہونا ضروری ہے۔

مثال:

ہم گھر سے دفتر جاتے ہیں اور دفتر پہنچنے کے بعد کوئی شخص ہم سے پوچھے کہ راستے میں کیا کیا چیزیں دیکھی ہیں۔ تو ہم ان سب چیزوں کے نام تو نہیں گنوا سکتے جو ہم نے راستے میں دیکھی ہیں صرف وہ چیزیں بنا سکتے ہیں جن پر ہم نے توجہ دی ہے۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ جب ہم گہری سوچ میں ہوتے ہیں تو گرد و پیش کی آوازوں اور آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ہم کچھ نہیں بتا سکتے۔

انسان کے ذہن میں خیالات او ر تصورات کا ایک سلسلہ قائم رہتا ہے۔ تفکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی تمام حرکات اور رنگینیاں انہی خیالات و تصورات سے وابستہ ہیں۔ تمام جبلی و فطری تقاضے بھی خیالا ت سے جنم لیتے ہیں۔ نہ صرف افعال زندگی بلکہ علوم و فنون بھی انسانی تصورات سے شروع ہوتے ہیں۔

جب ہم خارج میں دیکھتے ہیں تو ماحول کی اطلاعات، خیالات کے لئے محور کا کام کرتی ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ماحول سے لا تعلق بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے باوجو د خیالات و تصورات کی شبیہیں اس کے ذہن کے پردے پر بنتی رہتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خارج کا عکس جب روشنی کے ذریعے پردہ بصارت پر پڑتا ہے تو آنکھ بیرونی منظر کو دیکھتی ہے۔ لیکن جب خیالات و تصورات ذہن کے پردے پر ابھرتے ہیں تو باہر کی روشنی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ آدمی تصورات کے عکس کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح کہ باہر کے عکس کو دیکھتا ہے۔ تصورات کا عکس مدہم سہی لیکن وہی معانی رکھتا ہے جو باہر کا عکس رکھتا ہے۔پس معلوم ہوا کہ بصارت  کا عمل  دونوں صورتوں میں واقع ہوتا ہے۔

بارہا اس بات کا تجربہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہو یا کوئی شخصیت جس سے آپ دلی وابستگی رکھتے ہوں، اگر ذہن اس کی طرف چلا جائے اور توجہ میں گہرائی پیدا ہو جائے تو واقعہ کی جزئیات اور شخصیت کا خاکہ ذہن کے اسکرین پر عکس بن جاتا ہے۔ یہ خاکہ اس طرح عکس بنتا ہے کہ ہم اس کا احساس تصویری شکل وصورت میں کرتے ہیں۔ باہر سے کوئی منظر ذہن میں داخل نہیں ہوتا، اس کے باوجود ہم تصویری نقوش کو اس طرح اپنے سامنے پاتے ہیں جیسے وہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے۔

اسی طرح جب ہم سو جاتے ہیں اور ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں تو بھی خواب میں مختلف مناظر نگاہ کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ بات بھی تواتر کے ساتھ تجربے میں آتی ہے کہ خواب میں یا نیم غنودگی میں کوئی واقعہ نظر آیا اور کچھ عرصہ بعد وہی واقعہ بیداری میں بھی پیش آ گیا۔

روزمرہ کی ان مثالوں میں یہ بات مشترک ہے کہ مناظر کو دیکھتے وقت یا مناظر کے عکس کو محسوس کرتے وقت ہماری مادی آنکھوں کا عمل دخل صفر ہوتا ہے۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی نگاہ اپنے عمل میں مادی عوامل کی احتیاج سے آزاد ہے۔ ایک طرز میں وہ مادی آنکھ کے وسیلے سے حرکت کرتی ہے اور دوسری طرز میں اس کا عمل مادی آنکھ کے عمل سے ماوراء ہے۔ نگاہ کا وہ رخ جو مادی آنکھ کے بغیر کام کرتا ہے باطنی نگاہ، اندرونی نظر یا تیسری آنکھ کہلاتا ہے۔

روحانی علم کی روشنی میں آدمی کی تعریف بیان کی جائے تو اس کو نگاہ کا نام دیا جائے گا اور نگاہ کا دارومدار اطلاعات پر ہے اطلاعات ذہن میں آتی رہتی ہیں اور ذہن میں آ کر نگاہ بن جاتی ہیں۔

خارج یا داخل سے جو بھی اطلاع ذہن میں وارد ہوتی ہے۔ اس کی واضح ترین تشریح قوت باصرہ کرتی ہے۔ باصرہ انسان کے اندر ایک ایسی صلاحیت ہے جو ذہن کو زیادہ سے زیادہ تفصیلات سے مطلع کرنے کی پابند ہے۔ یہ قوت جب جسمانی نظام میں عمل کرتی ہے تو گوشت پوست کی آنکھ کے ذریعے ’’مشاہدہ‘‘ عمل میں آتا ہے اور یہی قوت مادی آنکھ کے بغیر بھی اپنا فعل انجام دے سکتی ہے۔ اگر مادی آنکھ کی حرکت کو معطل کر دیا جائے اور نگاہ کو متوجہ رکھا جائے۔ اطلاعات کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ چنانچہ قوت باصرہ صعود کرنا شروع کر دیتی ہے۔

قوت باصرہ جب تک اپنا کام پورا نہ کرے، اس کا کردار پورا نہیں ہوتا اور وہ تخلیق کے قانون کے مطابق اپنا عمل پورا کرنے کی پابند ہے۔ قوت باصرہ جب صعود کرتی ہے تو آدمی بند آنکھوں سے غیب کی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔ اس وقت بصارت کائنات کے تمام خدوخال کا مشاہدہ کرتی ہے۔ یہ وہ نقش و نگار ہوتے ہیں جو ایک قدم آگے بڑھ کر مادی خدوخال میں مظاہرہ بنتے ہیں ۔ ان نقش و نگار کو روح یا باطن کی دنیا کہا جاتا ہے۔ مراقبہ میں تسلسل قوت باصرہ کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مادی دنیا کے پس پردہ چلی جائے اور نگاہ کا مرکز وہ دنیا بن جائے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔

جب ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو پپوٹے حرکت کرتے ہیں اور پلک جھپکنے کا عمل صادر ہوتا ہے۔ بار بار پلک جھپکنے سے ڈیلوں پر ضرب پڑتی ہے اور ڈیلے حرکت کرتے ہیں۔ ڈیلوں کی حرکات سے باہر کی روشنیوں کا احساس دماغ میں کام کرتا ہے اور دماغ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ماحول میں فلاں فلاں چیزیں موجود ہیں۔ یہ تمام حرکات اس وقت صادر ہوتی ہیں جب آدمی کا رجحان بیرونی دنیا کی طرف ہوتا ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات چاہتا ہے۔ بیرونی دنیا میں انہماک اعصاب کی مخصوص حرکات میں نمودار ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈیلے حرکت کرتے ہیں اور پلک بار بار جھپک کر اعصاب کے اندر تحریک پیدا کرتی ہے۔ اس نوعیت کی تمام اعصابی تحریکات مادی بینائی کو حرکت دیتی ہیں اور انہی کی بدولت محدود بصارت کا میکانزم کام کرتا ہے۔

اگر نگاہ کو کسی ایک نقطہ پر جما دیا جائے اور پھلک جھپکنے کا عمل معطل ہو جائے تو یکسوئی غالب آنے لگتی ہے۔ اور ماحول کا احساس کم ہونے لگتا ہے۔ یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ نقطہ نظروں کے سامنے سے غائب ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک اسکرین دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پلک نہ جھپکنے سے ڈیلوں کی حرکات میں اضمحلال پیدا ہونے لگتا ہے اور جب ایک ہی منظر شعور کی اسکرین پر قائم رہتا ہے تو یہ کیفیت بڑھنے لگتی ہے۔

جب مادی حواس غالب ہوتے ہیں تو ذہن ایک خیال سے دوسرے خیال اور ایک بات سے دوسری بات کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ وہ کسی ایک خیال پر رکتا نہیں ہے۔ جب اس کے برعکس عمل ہوتا ہے توشعوری حواس مغلوب ہونے لگتے ہیں یعنی اگر دماغ کی اسکرین پر ایک ہی عکس قائم رہے اور آنکھ کے پپوٹوں کی حرکات معطل ہوں تو شعور کے اندر کام کرنے والی رو میں ٹھہراؤ واقع ہونے لگتا ہے۔ پپوٹوں کی حرکات ساکت ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ میں مادی بصارت مغلوب ہو جاتی ہے۔ جب یہ ٹھہراؤ ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو نگاہ کی طرز بدل جاتی ہے اور باطنی بینائی یا داخلی زاویہ نظر حرکت میں آ جاتا ہے۔

جب کوئی شخص مراقبہ کرتا ہے تو وہ تمام عوامل حرکت میں آجاتے ہیں جو ظاہری بینائی کو معطل کر کے باطنی نگاہ کو متحرک کرتے ہیں۔

خارجی اور داخلی دونوں اطلاعات کا دارومدار روشنی پر ہے۔ جس طرح خارج میں روشنی اطلاع کا ذریعہ ہے اسی طرح داخلی اطلاعات بھی روشنی کے ذریعے وصول ہوتی ہیں۔ روشنی میں تبدیلی واقع ہو جائے تو محسوسات و مشاہدات میں بھی نظر کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ دن طلوع ہوتا ہے اور ماحول سورج کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے تو ہمارے احساسات الگ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور جب رات کا اندھیرا پھیل جاتا ہے تو ہماری کیفیات وہ نہیں رہتیں جو دن میں ہوتی ہیں۔ اگر آنکھوں پر نیلے رنگ کا چشمہ لگا لیں تو ہر چیز نیلی نظر آتی ہے اور اگر سرخ لینس لگا لیا جائے تو سرخ رنگ غالب آ جاتا ہے۔ مسلسل تیز روشنی میں کام کیا جائے تو اعصاب میں اضمحلال پیدا ہو جاتا ہے اور اگر ماحول قدرتی رنگوں سے مزین ہو تو اعصاب فرحت محسوس کرتے ہیں۔ اگر دوربین آنکھوں پہ لگالی جائے تو دور کی اشیاء قریب نظر آتی ہیں۔ اور اگر خوردبین استعمال کی جائے تو نظر نہ آنے والی اشیاء نگاہ کے سامنے آ جاتی ہیں۔

مادیت کے دائرے میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ بہت چھوٹے ذرات، ایٹم اور ایٹم میں الیکٹران، پروٹان اور دیگر ایٹمی ذرات ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ جیسے جیسے فاصلہ بڑھتا ہے۔ ہم اشیاء کی صحیح ہیئت اور ان کی تفصیلات نہیں دیکھ سکتے۔ چند سو گز دور کا درخت اور اس کے پتے نظر نہیں آتے۔ عمارتیں اور ان کے خدوخال نگاہ کی ناتوانی کی وجہ سے دھندلے دکھائی دیتے ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ ایٹم میں الیکٹران مرکزے کے گرد گردش کرتے ہیں۔ مائع کی ساخت کی حدود میں مالیکیول تمام سمتوں میں آزادانہ حرکت کرتے ہیں جبکہ گیس میں ان کی حرکت کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا ہے۔ بہت سی چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کے اثرات سے انہیں پہچانا جاتا ہے جیسے بجلی کا بہاؤ، مقناطیسی میدان اور دوسری بہت سی لہریں۔

جب ہم طبعی فارمولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایجاد کی مدد لیتے ہیں تو بہت سی تفصیلات ، چھپی ہوئی چیزیں اور مستور زاویے نظر آ جاتے ہیں۔ جب خوردبین کا لینس آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا جرثومہ، وائرس اور دیگر باریک ذرات دکھائی دیتے ہیں۔ ’’الیکٹران مائیکرواسکوپ‘‘ کے ذریعے الیکٹران کا ہیولا نظر آجاتا ہے۔ دوربین کا عدسہ نگاہوں پر فٹ ہو جائے تو دور دراز کی چیزیں قریب نظر آنے لگتی ہیں۔ جس قسم اور جس طاقت کا لینس آنکھوں پر لگ جائے اسی مناسبت سے ان دیکھی چیزیں مشاہدہ بن جاتی ہیں۔ 

یہ تذکرہ ہے اس روشنی کا جو خارج میں کام کرتی ہے۔ خارجی روشنی کا زاویہ بدل جائے تو ہماری بصارت میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ذہن میں آنے والی اندرونی اطلاعات بھی روشنی کے عمل دخل پر قائم ہیں۔جب آنکھیں بند کر کے ذہن کو یکسو کر دیا جاتا ہے تو خارجی روشنی کا سلسلہ رک جاتا ہے چنانچہ داخلی روشنی حواس میں نفوذ کر کے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔