Topics

فنا کا مراقبہ

جب کوئی شخص مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے پہل ایک عنوان ہوتا ہے۔ لیکن اس عنوان کی ترتیب و تفصیل اس کے ذہن میں نہیں ہوتی۔ جب وہ کاغذ قلم سنبھال کر ذہن کو حرکت دیتا ہے تو مضمون کی تفصیل مرتب ہونے لگتی ہے۔ جو کچھ وہ لکھتا ہے وہ مفہوم اور معنویت کے اعتبار سے اس کے لاشعور میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اسی ذخیرے سے یہ مفہوم تفصیلی خدوخال اختیار کر کے الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے۔ مضمون میں کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو مفہوم اور معانی میں صاحب مضمون کے لاشعور میں موجود نہ ہو۔ اگر یہ موجودگی نہ ہو تو مضمون الفاظ کی شکل و صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ اس طرح مضمون کے تین تعینات قائم ہوتے ہیں۔ ایک وہ تعین جس میں مضمون مفہوم کی شکل میں وجود پذیر ہے۔ دوسرا وہ تعین جہاں الفاظ کی صورت میں متشکل ہوتا ہے اور تیسرا وہ تعین جہاں قلم الفاظ کو کاغذ پر لکھ کر مادی خدوخال بخشتا ہے۔

جس طرح مضمون کی تین حیثیتیں ہیں اور مضمون مادی شکل وصورت اختیار کرنے میں تین مراحل سے گزرتا ہے اسی طرح تمام مظاہرات تین جگہ موجود ہیں۔ کوئی بھی وجود یا کوئی بھی حرکت چاہے اس کا تعلق ماضی سے ہو، حال سے ہو یا اس کا رشتہ مستقبل سے ہو، وہ ان تین تعینات سے باہر نہیں ہے۔

اس بات کی مزید وضاحت کے لئے مصور کی مثال دی جاتی ہے ۔ ایک مصور کاغذ پر کبوتر کی تصویر بناتا ہے۔ وہ دوسری تصویر بنانا چاہے تو پھر بنا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تصویر کا علم اس کے ذہن میں محفوظ ہے۔ کاغذ پر صرف تصویر کا عکس منتقل ہوتا ہے۔ اصل تصویر منتقل نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ جتنی چاہے تصویریں بنا سکتا ہے۔ لیکن تصویر کا علم پھر بھی اس کے ذہن سے جدا نہیں ہوتا۔

کوئی بھی علم کوئی بھی حرکت، کوئی بھی مظہر جس جگہ مفہوم اور معنوی خدوخال میں موجود ہے اسے عالم تمثال کہتے ہیں۔ عالم تمثال میں بھی ہر مظہر نقوش اور خدوخال رکھتا ہے۔ ان خدوخال کو روح کی آنکھ دیکھتی ہے۔ اگر انسان مراقبہ کے ذریعے ان خدوخال یا ان نقوش کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اس کا شعور ان انطباعیہ نقوش کو معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ان نقوش میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جو مستقبل کے احکامات ہیں اور جن کی تعمیل من و عن اپنے وقت پر ظہور میں آتی ہے۔عالم تمثال کا مطالعہ کرنے کا طریقہ فنا کا مراقبہ ہے:

صاحب مراقبہ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرتا ہے کہ اس کی زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور وہ ایک نقطہ روشنی کی صورت میں موجود ہے۔ وہ یہ خیال اپنے ذہن میں مستحکم کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی دنیاسے بالکل آزاد ہے اور اس کا تعلق صرف اس دنیاسے باقی ہے جس کے احاطے میں ازل سے ابد تک کی سرگرمیاں موجود ہیں۔

چنانچہ کوئی شخص جتنی مشق کرتا ہے اتنی ہی عالم تمثال کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ ان نقوش کا مفہوم اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔