Topics
زمین پر موجود ہر شئے میں کوئی نہ کوئی
رنگ نمایاں ہے، کوئی شئے بے رنگ نہیں ہے۔ کیمیاوی سائنس بتاتی ہے کہ کسی عنصرکو
شکست و ریخت سے دوچار کیا جائے تو مخصوص قسم کے رنگ سامنے آتے ہیں۔ رنگوں کی یہ
مخصوص ترتیب کسی عنصر کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہر عنصر میں رنگوں کی ترتیب
جدا جدا ہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذ ہے۔ انسان کے اندر بھی رنگوں اور
لہروں کا مکمل نظام کام کرتا ہے۔ رنگوں اور لہروں کا خاص توازن کے ساتھ عمل کرنا
کسی انسان کی صحت کا ضامن ہے۔ اگر رنگوں میں رد و بدل ہو جائے تو انسانی طبیعت میں
بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔
جذبات و محسوسات میں رنگوں کا کردار نہایت
اہم ہے۔ یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ بری خبر سن کر چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے، خوف
کے عالم میں چہرے کے رنگ میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ غصہ کی حالت میں آنکھیں اور چہرہ
سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کمرے کی دیواروں کا رنگ گہرا سرخ ہو تو طبیعت پر
بار محسوس ہونے لگتا ہے۔ اگر اسی کمرے کی دیواروں کا رنگ نیلگوں کر دیا جائے تو
طبیعت پرسکون محسوس کرتی ہے۔ سرسبز و شاداب درخت اور رنگ برنگے، پھول دیکھ کر ذہنی
اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ لیکن یہی پودے جب خزاں میں سبز لباس اتار کر زرد پیراہن
اوڑھ لیتے ہیں تو انہیں دیکھ کر محسوسات بدل جاتے ہیں۔
نظریہ رنگ و نور ہمیں بتاتا ہے کہ نہ صرف
انسان کے جسم بلکہ حواس میں بھی رنگوں کی مخصوص مقداریں کام کرتی ہیں۔ اگر کسی وجہ
سے رنگوں کے نظام میں تبدیلی واقع ہو جائے، کسی رنگ کی کمی ہو جائے، کوئی رنگ زیادہ
ہو جائے یا رنگوں کے تناسب میں فرق آ جائے تو محسوسات میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی
ہے۔
علم روحانیت میں شاگرد کے اندر رنگوں اور
روشنیوں میں رد و بدل کیا جاتا ہے تا کہ شاگرد کا ذہن لا شعوری حواس سے قریب ہو
جائے۔ مراقبہ کی مسلسل مشق سے بھی روشنیوں کے نظام میں رنگینی بڑھنے لگتی ہے۔ یہ
ضروری ہے کہ روشنیوں اور رنگوں کی تبدیلیاں کسی صلاحیت کو بیدار کرنے میں استعمال
ہوں۔ اگر رنگوں اور روشنیوں کا اضافہ کسی صلاحیت، کسی حس کی تعمیر میں خرچ نہیں
ہوتا تو ان سے معمول کے حواس متاثر ہونے لگتے ہیں۔ روحانی استاد شاگرد کے اندر
پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا معائنہ کرتا رہتا ہے، حسب ضرورت ان میں تصرف کی قوت سے
کمی بیشی کرتا ہے تا کہ رنگوں اور روشنیوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ شعور کی قوتیں
بھی کام کرتی رہیں۔
اس کے برعکس جب ایک عام شخص میں رنگوں اور
روشنیوں میں معمول سے ہٹ کر تبدیلی واقع ہوتی ہے تو طبیعت اس کو برداشت نہیں کر
پاتی اور اس کا مظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یا ذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہم اس
کو کسی نہ کسی بیماری کا نام دیتے ہیں مثلاً بلڈ پریشر، کینسر، فساد خون، خون کی
کمی، سانس کے امراض، دق و سل، گھٹیا، ہڈیوں کے امراض، اعصابی تکالیف اور دیگر
غیر معمولی احساسات و جذبات وغیرہ۔
روحانی علوم کے طالب میں کس طرز پر رنگ و
روشنی میں تبدیلی کی جائے اس کا تعین صرف ایک ماہر استاد ہی کر سکتا ہے۔ طبیعت کا
رجحان، ذہن کی قوت، طرز فکر، طبعی ساخت اور دیگر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھا جاتا
ہے۔
مراقبہ کے ذریعے رنگ و روشنی کو جذب کرنے
کا طریقہ یہ ہے:
طریقہ نمبر 1: آرام
دہ نشست میں بیٹھ کر تصور کریں کہ رنگ اور روشنی کی لہریں پورے جسم میں جذب ہو رہی
ہیں۔
طریقہ نمبر2:
مراقبہ میں تصور کریں کہ رنگ یا روشنی کی لہر آسمان سے نازل ہو کر دماغ میں جذب ہو
رہی ہے۔
طریقہ نمبر3: مراقبہ میں تصور کیا جائے کہ
گرد و پیش کا پورا ماحول روشنی سے معمور ہے۔
طریقہ نمبر 4: یہ تصور کیا
جائے کہ مراقبہ کرنے والا روشنی کے دریا میں ڈوبا ہوا ہے۔
طبی اور جسمانی لحاظ سے ہر رنگ اور روشنی
کے الگ الگ خواص ہیں۔ جب کسی روشنی کا مراقبہ کیا جاتا ہے تو ذہن میں کیمیاوی
تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور دماغ میں مطلوبہ روشنی کو جذب کرنے کی طاقت بڑھ
جاتی ہے چونکہ طبی اور نفسیاتی امراض اور ان کا علاج اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ اس
لیے ہم اس موضوع پر تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ البتہ ایسے نفسیاتی عوارض جو ذہنی
ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے تدارک کے لئے رنگوں اور روشنیوں کے مراقبے پیش
خدمت ہیں۔
نوٹ: کسی رنگ یا روشنی کا مراقبہ کیا
جائے۔ اس کے لئے استاد کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔
نیلی روشنیوں سے دماغی امراض، گردن اور
کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی خرابی، ڈپریشن ، احساس محرومی، کمزور قوت
ارادی سے نجات مل جاتی ہے۔
یہ تصور کیا جائے کہ میں آسمان کے نیچے
ہوں اور آسمان سے روشنی اتر کر میرے دماغ میں جمع ہو رہی ہے اور پورے جسم سے گزر
کر پیروں کے ذریعے زمین میں ارتھ ہو رہی ہے۔
جمیل الدین، گجرانوالہ سے لکھتے ہیں۔ گردن
اور کمر کے درد کے لئے نیلی روشنی کا مراقبہ ہدایت کے مطابق کیا۔ پہلے دن روشنی کا
تصور کچھ زیادہ گہرا نہ تھا۔ مگر دوسرے دن یوں محسوس ہوا جیسے نیلی روشنی کی ایک
بڑی سی شعاع آسمان سے اتر کر میرے دماغ کے اندر داخل ہو رہی ہے۔ سارا دماغ نیلی
روشنیوں سے بھر گیا۔ پھر یہ روشنیاں دل میں داخل ہونے لگیں اور دل سے اتر کر معدہ
سے ہوتی ہوئی پاؤں کے ذریعے زمین میں ارتھ ہونے لگیں۔ میری نظر ارتھ ہونے والی
روشنیوں کی جانب گئی۔ یوں لگا جیسے جسم سے نکلنے والی روشنیاں جسم
میں داخل ہونے والی روشنیوں کے مقابلے میں کثیف ہیں۔ خیال آیا کہ آنے والی روشنیوں
کے بہاؤ نے بیماری کو اپنے ساتھ بہا کر جسم سے باہر نکال دیاہے۔ پندرہ منٹ کے اس
عمل کے بعد طبیعت ہلکی ہو گئی۔ مراقبہ کے خاتمہ پر درد میں ایک حد تک افاقہ تھا۔
ایک ماہ مسلسل یہ عمل کرنے سے اب میں مکمل طور پر شفا یاب ہوں۔
رضیہ سلطانہ، ٹنڈو آدم سے لکھتی ہیں۔ میں
عرصہ تین سال سے ڈپریشن میں مبتلا تھی۔ مجھ پر وقتاً فوقتاً مایوسی کے دورے پڑا
کرتے تھے۔ حالانکہ بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہ دیتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی خوشی
کے نام سے تو میں ضرور واقف تھی۔ مگر اس کے احساس سے زندگی محروم تھی۔۔۔۔۔۔نیلی
روشنیوں کے علاج نے میری دنیا ہی بدل ڈالی ہے۔ چھ ہفتوں کے مراقبہ نے میری کھوئی
ہوئی خوشیاں واپس لوٹا دی ہیں۔ لگتا ہے کہ نیلی روشنیوں نے میرے اندر غم کی لہروں
کا رخ پلٹ دیا ہے۔
محمد حامد، کراچی سے لکھتے ہیں کہ میری
عمر صرف بیس سال ہے۔ کالج میں پڑھتا ہوں۔ مگر قوت ارادی اس قدر کمزور ہے کہ کسی
بھی کام کے لئے سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔ کالج میں کسی سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس
ہوتی ہے۔ باوجود کوشش کے میری یہ کمزوری دور نہیں ہو رہی برائے مہربانی اس کے لئے
کوئی علاج تجویز کریں۔
ان کے لئے نیلی روشنیوں کا مراقبہ کا علاج
تجویز کیا گیا۔ ایک ماہ بعد جواب میں حامد صاحب نے اپنی کیفیات یوں لکھیں۔
قبلہ و کعبہ جناب عظیمی صاحب!
آپ بلا شبہ مخلوق خدا کے ہمدرد ہیں۔ آپ کے
تجویز کردہ نیلی روشنی کے مراقبہ نے میری دنیا ہی بدل ڈالی ہے۔ اس ایک ماہ کے
دوران میری شخصیت یکسر بدل کر رہ گئی ہے۔ اب میں ایک نارمل ہشاش بشاش نوجوان ہوں۔
ہر بات نہایت ہی خود اعتمادی کے ساتھ کرتا ہوں۔ نیلی روشنیوں کے مراقبہ میں میری
کیفیات مختلف ہیں۔ جن کی مختصر رپورٹ لکھ رہا ہوں۔
پہلے دن روشنی کا تصور ہی نہیں بندھا بلکہ
ذہن میں خیالات نہایت ہی تیزی سے آتے جاتے رہے۔ آپ کی ہدایت کے مطابق میں نے ان پر
توجہ نہ دی۔ پھر تصور میں آسمان سامنے آ گیا اور نیلے رنگ کا تصور قائم ہو گیا۔
پھر تقریباً کئی دنوں تک مسلسل ایک سی کیفیت رہی کہ نیلی شعاعیں آسمان سے اتر کر
میرے دماغ اور قلب میں جذب ہو رہی ہیں۔ پھر اس کے بعد کئی دنوں تک مجھے اپنا سراپا
نیلی روشنیوں کا بنا ہوا دکھائی دیا۔ مراقبہ کے بعد میں خود کو ہلکا محسوس کرتا
تھا۔ رفتہ رفتہ ذہن میں یہ یقین پختہ ہو گیا کہ میں بھی نارمل لڑکوں کی طرح ہر کسی
سے گفتگو کر سکتا ہوں اور آج ایک ماہ بعد مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرے اندر نئے
حامد نے جنم لیا ہے۔ میں اب بھی نیلی روشنیوں کا مراقبہ کر رہا ہوں اور ابھی کافی
عرصے تک اسے جاری رکھنے کا ارادہ ہے۔
نظام ہضم، حبس
ریاح، آنتوں کی دق ، پیچش، قبض، بواسیر، معدہ کا السر وغیرہ کے لئے نہایت ہی موثر
علاج ہے۔
کیس: سلمیٰ چودھری، ملتان سے لکھتی ہیں۔ میں
دو سال سے معدے کے السر کی مریضہ تھی۔ آپ نے زرد روشنیوں کا مراقبہ کرنے کی ہدایت
کی تھی۔ میں اس طرح تصور کرتی تھی کہ آسمان کے نیچے بیٹھی ہوں اور آسمان سے زرد
روشنی نکل کر میرے سر سے ہوتی ہوئی معدے میں ذخیرہ ہو رہی ہے۔ اس زرد روشنی میں
میرے معدے کا السر تحلیل ہو رہا ہے۔ دو ہفتے تک یہی احساس و کیفیات رہیں کہ السر
آہستہ آہستہ روشنیوں میں تحلیل ہو کر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ دو ہفتے بعد ایک دن
مراقبہ میں خود بخود یہ بات ذہن میں آ گئی کہ اب السر معدے سے غائب ہو چکا ہے اور
اب صرف زرد چمکیلی روشنی اور لطیف روشنیاں معدے میں موجود ہیں۔ اس دن کے بعد
تقریباً ہر روز یہی کیفیات رہیں اور آج ایک ماہ ہو گیا ہے۔ میں نے دوائیں بالکل
چھوڑ دی ہیں۔ صرف زرد روشنی کا مراقبہ کر رہی ہوں۔ میں کسی طرح آپ کا شکریہ ادا
نہیں کر سکتی۔ آپ نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے۔
کاکڑا ٹاؤن سے منصور احمد لکھتے ہیں۔ مجھے
بہت پرانی پیچش کا مرض تھا۔ ہر جگہ سے علا ج کرایا مگر ذرا افاقہ نہ ہوا۔ ہمت ہار
کر میں تقریباً مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے عظیمی صاحب کا
پتہ بتایا کہ تم وہاں جا کر علاج کراؤ۔ میری حالت سنتے ہی عظیمی صاحب نے فرمایا۔
آپ زرد روشنیوں کا مراقبہ کریں اللہ نے چاہا تو آرام آ جائے گا۔ میں نے کچھ بے
یقینی کے ساتھ اس عمل کو شروع کیا کیونکہ میں بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے علاج کرا چکا
تھا اور پیسہ بھی اس بیماری پر پانی کی طرح بہا چکا تھا۔ کئی سالوں سے مسلسل پرہیز
پر گاڑی چل رہی تھی۔ اب یقین نہ آتا تھا کہ اتنے معمولی علاج سے مرض ٹھیک ہو جائے۔
بہرحال مراقبہ شروع کیا تو دو دن تک تو تصور ہی نہ جما۔ پریشان خیالی ستاتی رہی
پھر تیسرے دن زرد روشنیوں کا تصور قائم ہو گیا اور مراقبہ میں میری دلچسپی قائم ہو
گئی۔ اس طرح پندرہ دن کے بعد خوب اچھی طرح تصور قائم ہو گیا اور مجھے اپنے اندر ان
روشنیوں کی کیفیات محسوس ہونے لگیں۔ ہر وقت جو بیماری کا دباؤ تھا۔ وہ دھیرے دھیرے
ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اسی اثناء میں پیچش میں بھی افاقہ معلوم ہوا۔ مجھے جو پرہیز
بتایا گیا تھا اس پر بھی عمل کیا۔ مرض میں کمی آئی تو خود بخود کھانے کو بھی جی
چاہنے لگا۔
ایک اور صاحب لاہور سے لکھتے ہیں۔ مجھے
آنتوں کی دق گذشتہ تین سال سے تھی۔ علاج بھی بہتیرا کرایا۔ مسلسل پرہیز پر گزارہ
ہوتا رہا۔ مجھے زرد روشنی کا مراقبہ بتایا گیا اور اس کے ساتھ ہی زرد روشنی کا
پانی بھی پینے کو کہا گیا۔ مسلسل علاج سے آنتوں کی سوزش اور درد میں کافی افاقہ ہو
گیا۔ ڈاکٹر نے چیک کیا تو مجھے رپورٹ لکھ کر دی کہ آپ کو بیماری نہیں ہے۔ میں اس
دن اس قدر خوش تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے زندگی میں پہلی بار خوشی سے ہمکنار ہوا
ہوں۔ اب میں ہر وقت جس بھی محفل میں بیٹھتا ہوں۔ اپنے دوست بھائیوں سے مراقبہ سے
علاج پر ضرور گفتگو کرتا ہوں۔ میرے نزدیک شکریے کا یہ سب سے بہتر طریقہ ہے کہ
زیادہ سے زیادہ لوگ اس انمول علاج سے فائدہ اٹھائیں۔
سینے کے امراض مثلاً دق، سل، پرانی
کھانسی، دمہ وغیرہ کے لئے مفید علاج ہے۔
ایک صاحب کو سل کا مرض تھا۔ دو سال سے ان
کے پھیپھڑے اس قدر متاثر تھے کہ انہیں خون کی الٹیاں ہو جاتی تھیں۔ انہیں نیلی
روشنیوں کے مراقبہ کے ساتھ نارنجی شعاعوں کا تیل مالش کے لئے بتایا گیا۔ دو ماہ کے
علاج سے ان کے اندر یہ تبدیلی آئی کہ خون کی الٹیاں پہلے کی نسبت بہت کم ہو گئیں۔
چھ ماہ کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے انہیں اس موذی مرض سے نجات مل گئی۔
اطہر حسین پھالیہ سے لکھتے ہیں کہ عرصہ
بارہ سال سے دمہ کی شکایت میں مبتلا ہوں اور اب تو امید بھی ٹوٹتی جا رہی ہے۔ بڑی
آس کے ساتھ اس امید پر رجوع کر رہا ہوں کہ عظیمی صاحب کوئی خصوصی نظر فرمائیں گے۔
انہیں بھی نارنجی شعاعوں کا مراقبہ اور پانی کا علاج کرایا گیا۔ اللہ کے فضل سے
بارہ سال پرانی بیماری کا خاتمہ ہو گیا۔
ہائی بلڈ پریشر اور خون میں حدت سے پیدا
ہونے والے امراض، جلدی امراض، خارش، آتشک، سوزاک، چھیپ وغیرہ کا علاج ہے۔
کیس: نصر اللہ بیگ، مردان سے
لکھتے ہیں: میرے سارے جسم پر خارش تھی۔ تین سال علاج ہوتا رہا۔ مگر یہ حال تھا کہ
خارش سے زخم بن جاتے تھے۔ بڑی تکلیف تھی۔ بالآخر سبز روشنیوں کے مراقبہ اور سبز
روشنیوں کے پانی سے پانچ ماہ کے عرصے میں اس تکلیف سے مکمل نجات مل گئی۔
ناہید فاطمہ، میانوالی۔ ہائی بلڈ پریشر کے
مرض میں شدید طور پر مبتلا تھیں۔ اتنی زیادہ کبھی کبھی حالت خراب ہو جاتی کہ گھر
کا کام کاج بھی مشکل ہو جاتا۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے بچے بھی نظر انداز ہو رہے تھے۔
صبح شام سبز روشنی کا مراقبہ سے اور رات کو کمرے میں سبز بلب روشن رکھنے سے بیس دن
میں حالت سدھر گئی۔
سندس بتول، پشاور سے لکھتی ہیں کہ میرے
سارے جسم پر چھیپ پڑ جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے میں سخت احساس کمتری کا شکار تھی۔ سبز
روشنی کے علاج سے میری یہ شکایت اب بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس علاج کے ساتھ ساتھ میں
نے سمندری سیپ کا علاج بھی کیا تھا۔
لو بلڈ پریشر، انیمیا، گھٹیا، دل کا
گھٹنا، دل کا ڈوبنا، توانائی کا کم محسوس کرنا، بزدلی، نروس بریک ڈاؤن، دماغ میں
مایوس کن خیالات آنا، موت کا خوف، اونچی آواز سے دماغ میں چوٹ محسوس ہونا وغیرہ کے
لئے سرخ روشنی کا مراقبہ کرایا جاتا ہے۔
کیس: ڈاکٹر نیاز حسین لکھتے ہیں۔ ایک سال سے
میری بیوی نروس بریک ڈاؤن کا شکار تھی۔ میڈیکل میں اس مرض کے لئے زیادہ تر نشہ آور
دوائیاں استعمال کراتے ہیں۔ جن سے دماغ کی حرکت اس قدر سست پڑ جاتی ہے کہ مریض کو
نیند آ جاتی ہے۔ نیند کی وجہ سے اس کا اعصابی تناؤ دور ہو جاتا ہے۔ میں نے چھ ماہ
تک بیوی کو ان ادویات پر رکھا۔مگر وہ ان کی عادی ہونے لگی اور دوا نہ کھانے کی
صورت میں اس پر نروس بریک ڈاؤن کا پہلے سے بھی شدید دورہ پڑنے لگا۔ میں نے اپنی
بیگم کو سرخ روشنیوں کا مراقبہ کرایا۔ بیماری کے اثرات چہرے سے مفقود ہیں۔ بلا شبہ
مراقبہ سے علاج نہایت ہی موثر اور بے ضرر علاج ہے۔ اب میں اکثر اپنے مریضوں کو
میڈیکل کے ساتھ ساتھ مراقبہ کا علاج بھی بتا دیتا ہوں۔ تا کہ نوع انسانی اس فیضانِ
نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔
صبغت اللہ لکھتے ہیں کہ میرا دماغ ہر وقت
مایوس کن خیالات کی آماجگاہ بنا رہتا تھا۔ وجہ اس کی کچھ نہ تھی۔ بس دل ہر وقت Negativeسوچ میں ڈوبا رہتا تھا۔ سرخ روشنی کے
مراقبہ سے میری سوچوں میں مثبت تبدیلی آ گئی ہے۔
مردوں کے جنسی امراض اور خواتین کے اندر
رحم سے متعلق امراض کا علاج ہے۔
کیس: ایک صاحب ڈیرہ اسماعیل خان
سے لکھتے ہیں۔جنسی کمزوری کی بناء پر میں شادی کے قابل نہ تھا۔ اس کی وجہ سے شدید
احساس کمتری کا شکار تھا۔ جامنی روشنیوں کے مراقبہ اور جامنی تیل کی مالش نے میری
یہ کمزوری کافی حد تک ختم کر دی ہے۔
ایک خاتون چیچہ وطنی سے لکھتی ہیں۔ میری
شادی کو عرصہ پانچ سال گزر گئے۔ اولاد سے محرومی تھی۔ ڈاکٹر رحم کے اندر ورم بتاتے
تھے۔ بہت علاج کرایا۔ بالآخر جامنی روشنی کا مراقبہ اور جامنی تیل کی مالش نے رحم
کے اندر کا ورم دور کر دیا اور اب میں امید سے ہوں۔
مرگی، دماغی دورے،
ذہن اور حافظہ کا ماؤف ہونا، ڈر اور خوف، عدم تحفظ کا احساس، زندگی سے متعلق منفی
خیالات آنا، دنیا سے بیزاری سے نجات پانے کے لئے موثر علاج ہے۔
کیس: سلمان انصاری ، ٹھٹھہ سے
لکھتے ہیں۔ میں عرصہ دراز سے مرگی کے مرض میں مبتلا تھا۔ اس میں بڑی اذیتیں بھی
اٹھائی ہیں۔ کئی بار بازار میں چلتے چلتے دورہ پڑ گیا۔ گر گیا اور چوٹیں لگیں۔ ایک
دفعہ نہاتے ہوئے دورہ پڑ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد لوگوں کو پتہ چلا غرضیکہ میری دیکھ
بھال کے لئے لوگ ساتھ رہتے تھے۔ جس کا مجھے ہر وقت احساس رہتا تھا۔ بھلا ہو عظیمی
صاحب کا جنہوں نے گلابی روشنیوں کا مراقبہ تجویز کر کے میری مسیحائی کی ہے۔ مجھے
یقین ہے کہ انشاء اللہ میں مکمل طور پر شفاء یاب ہو جاؤں گا۔
شیما نازلی، حیدر
آباد سے لکھتی ہیں۔ مسلسل ڈر اور خوف نے میری طبیعت میں بزدلی اور احساس کمتری بھر
دی تھی۔ شادی کے بعد کی زندگی میرے لئے کسی امتحان سے کم نہ تھی۔ ہر وقت شوہر کا
اور ساس نندوں کا خوف دل پر اس طرح طاری رہتا کہ باوجود تمام کام کرنے کے دل کی
دہشت ختم نہیں ہوتی اور کوئی کچھ کہے نہ کہے۔ میں خود ہر وقت اندر ہی اندر پتے کی
طرح لرزتی رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اللہ میاں کا خوف بھی میرے مزاج کا ایک حصہ بن
چکا تھا۔ اپنی نظر میں میرا ہر فعل ایک گناہ لگتا اور میں ہر وقت اللہ میاں سے ڈر
ڈر کے معافی مانگتی رہتی۔ اس دباؤ نے میرے تمام اعصاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور
میں ہر وقت مضمحل رہنے لگی۔ میرے شوہر نے مجھے گلابی روشنیوں کا مراقبہ کرنے کو
کہا۔ دو ماہ کے بعد آج میں مطمئن ہوں اور کافی حد تک مجھے یقین ہے کہ اب مکمل طور
پر صحت یاب ہو جاؤں گی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔