Topics

مراقبہ اور مذہب

ارباب مذہب و منبر کہتے ہیں کہ مراقبہ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آسمانی صحائف میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ بات ایک سطحی طرز فکر رکھنے والے شخص کو تو متاثر کرتی ہے لیکن جب دین کی حکمت اور گہرائی تلاش کی جاتی ہے تو یہ تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ جب ہم آسمانی صحائف اور آخری کتاب قرآن پاک کی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو اللہ کی کتاب تفکر کا حکم دیتی ہے۔ تفکر سے مراد یہ ہے کہ تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور کیا جائے۔ مذہب کا دوسرا اہم ترین رکن صلوٰۃ ہے اور لفظ صلوٰۃ ایک جامع اصطلاح ہے۔ صلوٰۃ کا ترجمہ ہے ربط قائم کرنا۔ ربط قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ذہنی تفکر کے ساتھ بندہ کا تعلق قائم ہو جائے۔ ذہنی تفکر (Concentrations) مراقبہ ہے۔

مراقبہ کو کسی نشست یا طریقہ کار سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ مراقبہ ایک ذہنی کیفیت یا ذہنی فعل ہے۔ دین نے اعمال و ارکان کا جو نظام ترتیب دیا ہے۔ اس میں ظاہری اور باطنی دونوں واردات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ہر رکن اور ہر عمل کی ایک ظاہری شکل و صورت ہے اور دوسری باطنی یا معنوی کیفیت ہے ان دونوں اجزاء کا ایک ساتھ موجود ہونا ضروری ہے۔

مذہبی ارکان و فرائض کے ذریعے جس باطنی کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی انتہا مرتبہ احسان (مراقبہ) ہے۔ محمد الرسول اللہ نے باطنی کیفیت کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی ہے۔

"جب تم صلوٰۃ میں مشغول ہو تو یہ تصور کرو کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو یا یہ محسوس کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔"

ارکان مذہب کے باطنی وصف (تفکر) کے ذریعے کوئی شخص بالآخر’’صفت احسان‘‘ کو حاصل کر لیتا ہے۔ یعنی اسے ذات باری تعالیٰ کا عرفان نصیب ہو جاتا ہے۔

دور رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام میں اہل ایمان کے لیے محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس مرکز نگاہ تھی۔ صحابہ کی ارواح عشق رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام سے رنگین تھیں۔ ان کا بیشتر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات بابرکات پر تفکر میں صرف ہوتا تھا۔ ان کو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گفتگو اور رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعمال و افعال کی حکمت تلاش کرنے میں حد درجہ انہماک تھا۔ اس انہماک کی بدولت وہ روحانی انوار سے پورے پورے فیض یاب ہوتے تھے۔ خدمت نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں مسلسل موجود رہنے سے ان کے اندر تفکر و وجدان کا زاویہ از خود پیدا ہو گیا تھا۔ اس بات کو حاصل کرنے کے لئے انہیں کسی کوشش اور محنت کی ضرورت نہ تھی۔

محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد آپ ﷺکا قرب بُعد سے بدل گیا اور سرچشمہ روحانیت کی فیض رسانی ظاہری نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ آہستہ آہستہ دین کا باطنی وصف(تفکر) ذہنوں سے مٹنے لگا اور دین صرف رسوم اور ظاہری اعمال کا مجموعہ بن گیا۔ اولیاء اللہ اور صوفیائے اکرام نے مذہب کی روحانی غرض و غایت کو اجاگر کیا اور باطنی پہلو کی ترتیب و تدوین کرتے ہوئے ضابطے بنائے۔ اس کوشش کا مقصد ذکر کے ساتھ فکر کی راہ کو شامل حال کرنا تھا۔ چنانچہ فکر کی عملی شکل و صورت کو مراقبہ کہا گیا جس کے معنی غور کرنا یا کسی چیز پر Concentrateکرنا ہے۔

تفکر:

تمام الہامی کتابوں میں عموماًاور قرآن پاک میں خصوصاً تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور جگہ جگہ تفکر کا حکم دیا گیا ہے کہیں حکم ہے کہ آسمانوں پر غور کرو۔ زمین پر غور کرو، کہیں بارش برسنے اور نباتات اگنے پر توجہ دلائی گئی ہے۔ کسی جگہ مخلوقات کی پیدائش اور انسان کی تخلیق پر فکر کرنے کا ارشاد ہے۔ اسلوب بیان کے مختلف طریقوں سے تفکر کو سوچ کا حصہ بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اہل علم اور خاصان خدا کا یہ وصف ہے کہ ان کے ذہنوں پر تفکر کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔

فرمان الٰہی ہے:

’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں دانش مندوں کے لئے نشانیاں ہیں جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اور تفکر کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر اور نتیجہ میں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب کچھ بلا وجہ پیدا نہیں کیا۔‘‘ (آل عمران)

اسی طرح قرآن مجید نے کائنات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں مطلع فرمایا ہے۔ کہیں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ:

"تم جدھر بھی منہ کرو، وہاں اللہ کا چہرہ ہے"

کہیں یہ فرمایا گیا ہے کہ

’’یہ بات جان لو، یقین کر لو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘

فرمان الٰہی ہے کہ

’’اللہ ہر شئے پر محیط ہے۔‘‘

قرآن میں ہے:

’’کیا نہیں دیکھا اس شخص کو جو گزرا ایک بستی پر اوردرآں حالیکہ وہ گری پڑی تھی اپنی چھتوں کے بل۔ کہنے لگا کیوں کر زندہ کرے گا اسے اللہ اس کے ہلاک ہونے کے بعد۔ سو مردہ رکھا اسے اللہ نے سو سال تک۔ پھر زندہ کیا اسے۔ فرمایا کتنی مدت تو یہاں ٹھہرا رہا۔ اس نے عرض کی کہ میں ٹھہرا ہوں گا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ، اللہ نے فرمایا نہیں۔ بلکہ ٹھہرا رہا ہے تو سو سال۔ اب دیکھ اپنے کھانے اور اپنے پینے کے سامان کی طرف یہ باسی نہیں ہوا۔ اور دیکھ اپنے گدھے کو اوریہ سب اس لیے کہ ہم بتائیں تجھے نشان لوگوں کے لئے اور دیکھ ان ہڈیوں کو کہ ہم کیسے جوڑتے ہیں انہیں۔ پھر ہم پہناتے ہیں انہیں گوشت۔ پھر جب حقیقت روشن ہو گئی اس کے لئے۔ تو اس نے کہا میں جان گیا ہوں کہ بے شک اللہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (البقرہ)

سورۃ آل عمران میں ارشاد ہے۔

’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اللہ (براہ راست )مگر وحی کے طور پر یا پس پردہ یا بھیجے کوئی پیغامبر اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو اللہ چاہے۔ بلاشبہ وہ اونچی شان والا بہت دانا ہے۔ اور اسی طرح اس نے بذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے۔ نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو نور، ہم ہدایت دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔‘‘

سورۃ ملک میں ہے۔

’’جس نے بنائے سات آسمان اوپر نیچے تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ رحمٰن کی آفرینش میں کوئی خلل۔ ذرا پھر نگاہ اٹھا کر دیکھ۔ کیا تجھے کوئی رخنہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال۔ لوٹ آئے گی تیری طرف نگاہ ناکام ہو کر دراں حالیکہ وہ تھکی ماندی ہو گی۔‘‘ 

قرآن میں ہے:

’’بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں۔ جو ان کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ جنہیں علم دیا گیا اور ظالموں کے بغیر ہماری آیتوں کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘‘ (العنکبوت)

قرآن میں ہے:

’’نہیں تنازعہ کیا کرتے اللہ کی آیتوں میں مگر کافر۔ پس نہ دھوکے میں ڈالے تمہیں ان لوگوں کا آنا جانا مختلف شہروں میں۔‘‘ (المومن)

فرمان الٰہی ہے۔

’’پس میں قسم کھاتا ہوں ان جگہوں کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ بے شک یہ قرآن ہے بڑی عزت والا۔ ایک کتاب میں جو محفوظ ہے۔ اس کو نہیں چھوتے مگر وہی جو پاک ہیں۔ یہ اتارا گیا رب اللعالمین کی طرف سے کیا تم اس قرآن کے بارے میں کوتاہی کرتے ہو اور تم نے اپنا یہی نصیب بنا لیا ہے کہ تم اس کو جھٹلاتے رہو گے۔ پس تم کیوں لوٹا نہیں دیتے جب روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور تم اس وقت پاس بیٹھے دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے زیادہ مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں۔ البتہ تم دیکھ نہیں سکتے۔‘‘

سورۃ الرحمٰن میں دعوت فکر ہے۔

’’اے گروہ جن و انس! اگر تم میں طاقت ہے کہ تم نکل بھاگو آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے تو نکل کر بھاگ جاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے۔ بجز سلطان(روحانی صلاحیتوں) کے پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘

سورۃ البقرہ میں فرمان ہے۔

’’اسلام کے پیروکار ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی جو کوئی بھی ایمان لائے اللہ پر اور دن قیامت پر اور نیک عمل کرے۔ تو ان کے لئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے ہاں اور نہیں کوئی اندیشہ ان کے لئے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

ان تمام آیات میں جو امور غیب سے متعلق بیان ہوئے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی ان حقائق کو اپنے شعور میں اس طرح راسخ کرلے۔۔۔کہ ذرہ بھر بھی شک باقی نہ رہے اور آدمی یقین کے درجے میں پہنچ جائے۔ یہی یقین آدمی کو مشاہدے تک پہنچا دیتا ہے۔ اولیاء اللہ کے نزدیک یہی مرتبہ زبانی اقرار کے بعد قلب کی تصدیق ہے یعنی آدمی اپنے قلب کی آنکھ سے ان باتوں کا مشاہدہ حاصل کر لے جو اس کا ایمان ہیں۔

یقین کی کیفیت کو شعور کا جزو بنانے کے لئے اہل اللہ سے اپنا شاگردوں کو مراقبہ تعلیم کیا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے کسی حقیقت کو قلب پر اس طرح محیط کیا جاتا ہے کہ روح کی آنکھ کھل جائے اور آدمی حقیقت کو اپنے سامنے مجسم و متشکل دیکھ لے۔

تفکر کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تفکر ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان اپنے تمام تر تواہمات اور خیالات سے دست بردار ہو کر کسی خیال کسی نقطہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر کرتا ہے۔ اہل تصوف اور روحانیت نے جب تفکر کو ایک مشق کی صورت دی اور اس کے لئے مختلف قاعدے اور آداب مقرر کئے تو اس کا اصطلاحی نام مراقبہ ہو گیا۔

فکر انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ اور غیب کا مشاہدہ ظاہر میں موجود کسی چیز کی تحلیل میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہم کسی چیز کے باطن کو دیکھ لیں تو پھر اس کے ظاہر کا پوشیدہ رہنا ممکن نہیں۔ اس طرح ظاہر کی وسعتیں ذہن انسانی پر منکشف ہو جاتی ہیں اور یہ جاننے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ظاہر کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے۔

یہ انبیائے ربانی کا طریق ہے کہ وہ باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ باطن میں تفکر کرنے سے بالآخر ذہن اس روشنی سے منور ہو جاتا ہے۔ جس سے مخفی حقائق مشاہدے میں آتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس روشنی کو نور فراست کہا ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:

’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘

فکر کا ارتکاز ظاہری و باطنی دونوں علوم میں ضروری ہے۔ جب تک فکر میں ذوق، شوق، تجسس اور گہرائی کی قوتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ ہم کسی بھی علم کو نہیں سیکھ سکتے۔ اسی طرح روح کے علم کو حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ آدمی اپنی فکری صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جب کوئی شخص ارادے اور عمل کی پاکیزگی کے ساتھ تفکر کرتا ہے تو نقطہ نظر کھل جاتا ہے اور اس کی معنویت یا اس کا باطن سامنے آ جاتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ نے جگہ جگہ اپنی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر تفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نشانی دراصل ظاہری حرکات یا مظہر کا نام ہے اور غور و فکر کرنے کی طرف توجہ دلانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پس پردہ ایسے عوامل موجود ہیں جن کو سمجھ کر آدمی حقیقت کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ دراصل تمام طبعی علوم اور مادی مظاہر روحانی قوانین پر قائم ہیں۔ توجہ اور تفکر کے ذریعے ان قوانین کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔

محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے۔’’جس نے اپنے نفس کا عرفان حاصل کر لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘

انسانی نفس، انا یا روح ایسی صفات کا مجموعہ ہے جو پوری کائنات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی لیے انسان کو خلاصہ موجودات بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں فرماتے ہیں۔

’’ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘

جب کوئی شخص اپنی روح کی صلاحیتوں اور صفات کو تلاش کرتا ہے تو اس پر تخلیق کے راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ عرفان نفس بالآخر ذہن میں ایسی روشنی پیدا کر دیتا ہے جو خالق کی پہچان کا باعث بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے۔ تم دیکھتے کیوں نہیں۔‘‘

یہ بھی بشارت دی گئی ہے کہ

’’ہم عنقریب انہیں آفاق اور انفس میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں گے۔‘‘

عرفان نفس کا راستہ نبیوں اور رسولوں سے نوع انسانی کو منتقل ہوا ہے۔ نور نبوت سے فیض یافتہ حضرات نے جن طرزوں پر چل کر نفس کا عرفان حاصل کیا اس میں مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

مراقبہ ایک قلبی عمل ہے، جو لفظ رقیب سے ماخوذ ہے۔ رقیب اسمائے الٰہی میں سے ایک اسم ہے جس کے معنی نگہبان، پاسبان کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ذہن کی اس طرح نگہبانی کی جائے کہ وہ معکوس خیالات، پریشان افکار سے قطعی الگ ہو کر اللہ کی طرف یا اللہ کی کسی صفت کی طرف یا اللہ کی کسی نشانی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ رقیب کے دوسرے معنی منتظر کے بھی ہیں اس معنی میں مراقبہ کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ظاہری حواس کو ایک مرکز پر جمع کر کے اپنی روح یا باطن کی طرف متوجہ ہو جائے تا کہ اس کے اوپر روحانی دنیا کے معانی و اسرار روشن ہو جائیں۔

مراقبہ کے اصطلاحی معنی غور و فکر اور تصور کے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ:

’’مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ قوت ادراک کو کسی چیز کی طرف متوجہ کر دیا جائے چاہے حق تعالیٰ کی صفات کی طرف یا جسم سے روح کے جدا ہونے کی حالت کی طرف یا اسی طرح کسی دوسری چیز کی جانب۔ یہ توجہ اس طرح ہو کہ عقل، وہم، خیال اور سارے حواس اس توجہ کے تابع ہو جائیں اور جو چیز محسوس نہ ہو وہ بجائے محسوس ہونے کے معلوم ہو جائے۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ انسانی حواس میں جو علوم و حقائق عقل و شعور سے ماورا ء ہیں اور حصہ روح ہیں، مراقبہ کے ذریعے ادراک اور محسوسات کی حدوں کو عبور کر کے مشاہدہ و معائنہ میں داخل ہو جائیں۔

حضرت غوث علی شاہؒ کے حوالے سے تعلیم غوثیہ میں یوں لکھا ہے:

’’مراقبہ کی ایک حالت یہ ہے کہ ہر وقت مراقبہ کرنے والے کی توجہ قلب کی طرف رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ قلبی کیفیات میں مشغول و متوجہ رہتا ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اسمائے الٰہی میں سے کسی اسم پر یا قرآنی آیت کے معنی پر اپنی تمام تر توجہ مبذول رکھے۔ اور مرکزیت اتنی زیادہ ہو جائے کہ مراقبہ کرنے والا خود معانی بن جائے اور اسے اپنی خبر نہ رہے۔ یا درہے کہ مراقبہ قلبی کیفیات پر منحصر ہے۔ جب دل متوجہ الی اللہ یا غیر اللہ ہوتا ہے تو سب اعضاء بھی اسی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب دل کے تابع ہیں اور نتیجہ مراقبہ یہ ہے کہ تصورمحبوب میں ایسا مستغرق ہو کہ پھر کسی کی بھی خبر نہ رہے۔‘‘

حضرت ابن مبارک نے ایک شخص سے فرمایا۔

’’راقب اللہ، تو اس نے اس کے معنی دریافت کئے آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ اس طرح زندہ رہ کہ تو خدا کو دیکھتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:

’’ترجمہ: ’’اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اس کو دیکھتا ہے۔پس اگر تجھ کو یہ بات میسر نہ ہو کہ تو اس کو دیکھ سکے تو یہ محسوس کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘

اس حدیث میں پہلا مقام مشاہدہ ہے اور دوسرا مقام مراقبہ ہے۔

امام غزالیؒ اپنی کتاب کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں:

’’اے دوست! یہ نہ سمجھ کہ عالم روحانی کی طرف قلب کا دروازہ موت سے قبل نہیں کھلتا۔ یہ خیال غلط ہے۔ اگر کوئی شخص عالم بیداری میں عبادت کرے اور خود کو برے اخلاق سے بچائے، تنہائی اختیار کرے۔ ظاہری آنکھیں بند کر دے اور ظاہری حواس معطل کر دینے کے بعد اپنے دل کو معرفت الٰہی کی طرف رجوع کرے۔ زبان کی بجائے دل سے ’’اللہ‘‘ کے نام کا ورد کرتے ہوئے خود کو محو کر دے اور دنیا کی ہر شئے سے بے نیاز ہو جائے تو اس درجہ پر پہنچنے کے بعد انسان کے قلب کا دروازہ عالم بیداری میں بھی کھل جاتا ہے۔ دوسرے لوگ جو خواب میں دیکھتے ہیں وہ عالم بیداری میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو فرشتے نظر آتے ہیں، وہ انبیاء کرام کا دیدار کرتا ہے اور ان سے فیوض حاصل کرتا ہے۔ ملائکہ، زمین و آسمان اس کو دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘

غیبی کوائف کا مشاہدہ کرنے کے لئے تمام برگزیدہ ہستیوں، انبیاء اور رسولوں نے تفکر سے کام لیا ہے ۔ اور چند ماہ یا چند سال اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ مراقبے میں گزارے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ مرتبہ پیغمبری کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے جو وہ کسی بندے پر کرتا ہے۔ سلسلہ رسالت و نبوت ختم ہو گیا ہے لیکن الہام اور روشن ضمیری کا فیضان جاری ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ :

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایک وقت ایسا آیا جب تلاش حق میں ان پر گہرے تفکر کا غلبہ ہو گیا۔ خالق حقیقی کی معرفت حاصل کرنے میں ان کا ذہن مظاہر کی طرف منتقل ہوا اور یہ بات مسلسل نقطہ فکر بنی رہی کہ رب کون ہے اور کہاں ہے۔۔

پیہم فکر نے بالآخر آپ پر عرفان کی راہیں کھول دیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور ہدایت حاصل ہو گیا۔ قرآن پاک نے حضرت ابراہیم ؑ کے تفکر کو اس طرح بیان کیا ہے۔

’’اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات کا مشاہدہ کرایا تا کہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ آپ نے فرمایا یہ میرا رب ہے۔ سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا۔یہ میرا رب ہے۔ سو جب وہ بھی غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے۔ یہ سب سے بڑا ہے۔ سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا۔’’اے قوم! بے شک تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں۔‘‘ (سورۃ انعام)

حضرت موسیٰ ؑ :

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے رہائی دلا کر چلے تو راستے میں انہوں صحرائے سینا میں قیام کیا۔ یہاں آپ نے قوم کے معاملات حضرت ہارون ؑ کے سپرد فرمائے اور خود حکم ربانی کے مطابق کوہ طور پر تشریف لے گئے۔ آپ نے چالیس دن اور چالیس راتیں کوہ طور پر گزارے۔ یہیں آپ پر تورات نازل ہوئی۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس رات کا اور بڑھا دیا اس کو دس راتوں سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ چالیس دن اور چالیس راتیں مسلسل کوہ طور پر مقیم رہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ نے لفظ ’’رات‘‘ استعمال فرمایا ہے، دن کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ روحانی علوم کے مطابق ’’رات‘‘ ان حواس کا نام ہے جو غیبی انکشافات کا ذریعہ ہیں۔ مراقبے میں انسانی ذہن پر رات کے حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور انسان زمانیت اور مکانیت سے آزاد ہو کر غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ پر چالیس دن اور چالیس راتیں۔ رات کے حوا س کا غلبہ رہا اور اس طرح آپ کا ذہن اس قابل ہو گیا کہ وہ غیبی مظاہرہ اور الٰہی تعلیمات کو دیکھ اور سمجھ سکیں۔

حضرت مریم ؑ :

حضرت مریم ؑ کی والدہ نے نذر مانی کہ اگر ان کے اولاد ہوئی تو وہ اسے بیت المقدس کے ہیکل کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ ان کی توقع تھی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا لیکن ان کے ہاں لڑکی (حضرت مریم ؑ ) کی پیدائش ہوئی۔ نذر کے مطابق انہوں نے حضرت مریم ؑ کو ہیکل کے لئے وقف کر دیا اور حضر ت مریم ؑ کے سرپرست حضرت زکریاؑ مقرر ہوئے۔ حضرت مریم ؑ بیت المقدس کے ایک گوشے میں خلوت گزیں ہو گئیں۔ ان کی خلوت نشینی، ذہنی یکسوئی(مراقبہ) کے لئے تھی۔ اس اعتکاف کے دوران ان سے خصائل اور کرامت کا ظہور شروع ہو گیا۔ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت زکریاؑ حضرت مریم ؑ کے پاس تشریف لے جاتے تو وہاں بے موسم کے پھل رکھے ہوئے دیکھتے حضرت زکریاؑ کے دریافت کرنے پر حضرت مریم ؑ نے فرمایا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے۔

حضرت عیسیٰ ؑ :

حضرت عیسیٰ ؑ چالیس دن ایک بیابان میں معتکف رہے۔ اس دوران شیطان نے آپ کے ارادہ میں رخنہ ڈالنا چاہا، لالچ اور منفعت کے پہلو دکھا کر اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ نے اس کی باتوں کی طرف مطلق توجہ نہ فرمائی اور بالآخرعنایت ربانی کا نزول آپ پر شروع ہو گیا۔ مرقس کی انجیل میں لکھا ہے:

’’اور ان دنوں ایسا ہوا کہ یسوع نے نگیل کے ناصرۃ سے آ کر یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا اور جب وہ پانی سے نکل کر اوپر آیا تو فی الفور اس نے آسمان کو پھٹتے اور روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اترتے دیکھا۔۔۔اور فی الفورروح نے اسے بیابان میں بھیج دیا۔ اور وہ بیابان میں چالیس دن تک شیطان سے آزمایا گیا۔ اور جنگلی جانوروں کے ساتھ رہا اور فرشتے اس کی خدمت کرتے رہے۔‘‘

حضرت مریم ؑ کی گوشہ نشینی ہو یا حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی خلوت گزینی، بنیادی بات یہ سامنے آتی ہے کہ ان ہستیوں نے ایک معینہ مدت تک تمام ظاہری علائق اور دنیاوی معاملات سے ذہنی رشتہ منقطع رکھا اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ غیب کی دنیا کی طرف متوجہ رہے۔

اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام میں مراقبے کا تذکرہ کس طرح کیا گیا ہے اور محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ میں مراقبہ کا کیا مقام ہے۔

غار حرا:

حضور اکرم محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں ایک بڑا موڑ اس وقت آیا جب آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل دور واقع غار حرا میں خلوت نشین رہنے لگے۔ آپ کی یہ خلوت نشینی عارضی ہوتی تھی۔ چند دن یا چند ہفتے غار میں قیام کرنے کے بعد آپ شہر واپس آ جاتے، اہل و عیال سے ملتے اور ان کی ضروریات کا سامان پورا کرتے، عزیزوں دوستوں سے مل کر واپس غار حرا میں چلے جاتے تھے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ساتھ خورد و نوش کا سامان بھی لے جاتے تھے جو صرف ستو، کھجوروں اور پانی پر مشتمل ہوتا تھا۔

یہ بات ظاہر ہے کہ محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا میں ذہنی یکسوئی(Concentration) کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ روحانی علوم کے نقطہ نظر سے محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا میں مراقبہ فرماتے تھے۔ آپ کا ذہن حقیقت کائنات اور خداوند قدوس کی ذات پر مسلسل مرکوز رہتا تھا۔ جب یہ مرکزیت اپنی حد تک پہنچ گئی تو غیب مشاہدے میں آ گیا۔ سب سے پہلے آپ کی نظر ملائکہ پر پڑی اور ملاء اعلیٰ کے سردار حضرت جبرئیل علیہ السلام سامنے آ گئے۔ حضرت جبرئیل ؑ کی معرفت تعلیمات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ذات خداوندی نے براہ راست تعلیمات دیں۔ جس کا تذکرہ معراج شریف کے واقعے میں بیان کیا گیا ہے۔

’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، تا کہ دکھلائے اسے اپنی قدرت کی نشانیاں۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل) 

’’ان کو تعلیم کرتا ہے جس کی طاقت زبردست ہے۔ اصل صورت پر نمودار ہوا جب افق اعلیٰ پر تھا۔ نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا۔ جھکا، دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔‘‘ (سورۃ نجم)

توجہ الی اللہ:

محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا میں مراقبہ سے فارغ ہوئے تو آپ کو ایک اور حکم ربانی ملا۔ سورۃ مزمل میں ارشاد ہے:

’’اے کپڑوں میں لپٹنے والے! رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات(کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو) یا اس سے نصف کسی قدر کم کر دو۔ نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب صاف صاف پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری حکم ڈالنے کو ہیں۔‘‘

رات کے اوقات میں جب ظاہری حواس پر اضمحلال طاری ہوتا ہے اور باطنی حواس بیداری کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قیام فرماتے تھے۔ متواتر کھڑا رہنے سے آپ کے پیروں میں ورم آ جاتا تھا۔

ذہنی یکسوئی اور جسمانی بیداری کے ساتھ یہ قیام اس تعلق کو مضبوط تر کرتا گیا جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عالم غیب اور ذات خداوندی سے حاصل تھا۔ جیسے جیسے انشراح حاصل ہوتا گیا۔ غیبی مشاہدات اور روحانی عروج بڑھتا گیا۔

انہی احکامات کے سلسلے میں ایک حکم یہ ہے:

’’سب سے قطع ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ جو مشرق اور مغرب کا رب ہے۔‘‘ (قرآن)

روحانیت کی اصطلاح میں یہ کوشش جس میں تمام ذہنی رجحانات کو ذات باری تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے، مراقبہ ذات کہلاتی ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ اللہ سے تعلق حاصل کرنا ہی ساری عبادات اور ریاضت کا جوہر ہے۔چاہے وہ صلوٰۃ ہو، روزہ ہو، زکوٰۃ ہو، حج ہو، ذکر الٰہی ہو یا دوسری نفلی عبادات ہوں۔ ان پاکیزہ نفس لوگوں کے لئے جن کا اللہ سے ذہنی ربط قائم ہو جاتا ہے اللہ کا فرمان ہے:

"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دنیاوی زندگی کی خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر سکتی۔‘‘ (سورۃ نور)

انسان کی روحانی اور جسمانی دونوں ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے مذہب نے عبادات کا ڈھانچہ مرتب کیا ہے۔ اللہ سے رابطہ، ذکر الٰہی، اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کا تصور رکھنا، صلوٰۃ قائم کرنا، اپنی نفی کر کے اللہ کو فاعل حقیقی تصور کرنا، روزے رکھنا، اللہ پر توکل کرنا، ان سب کا بغور تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ان اعمال و افکار کے ذریعے ذہنی مرکزیت ایک نقطہ پر قائم رہتی ہے اور یہ نقطہ اللہ کی ذات ہے جو اس کائنات کی حقیقت کبریٰ ہے۔

اللہ کی طرف رجوع رہنے اور قلب کی صفائی کے لئے مذہب نے فرض اعمال کا لائحہ عمل مقرر کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حالات جتنی اجازت دیں اور انسان جتنا چاہے نفلی کوششیں کر سکتا ہے۔ تہجدمیں قیام، ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، نفلی روزوں کے ذریعے، اسی بات کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تمام عبادات کی روح اعمال و اشغال میں تفکر ہے۔ جب فکر کو حرکت دینے اور فکر کو مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے تو فاسد خیالات کمزور پڑ جاتے ہیں اور توجہ الی اللہ، میں گہرائی واقع ہوتی ہے۔ جس وقت کسی شخص کو عبادات میں استغراق حاصل ہو جاتا ہے عبادات کے بھرپور ثمرات نصیب ہو جاتے ہیں۔

نماز اور مراقبہ:

تمام انبیاء کی طرح نبی آخر الزماں محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حکم ربانی کے مطابق احکام و عبادات کا ایک دستور امت کو عطا کیا ہے۔ اس دستور میں اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ ہر طبقے اور ہر سطح کا شخص اس پر عمل کر سکے اور اس عمل کے نتیجے میں اللہ سے تعلق کا عکس شعور کی سطح پر بار بار پڑتا رہے۔ کلمہ طیبہ کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن صلوٰۃ ہے۔ صلوٰۃ کسی شخص کے اندر اللہ کے سامنے موجود ہونے کا تصور بیدار کرتی ہے اور بار بار یہ عمل دہرانے سے اللہ کی طرف متوجہ رہنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ صلوٰۃ میں زندگی کی تمام حرکات سمو دی گئی ہیں تا کہ آدمی زندگی کا کوئی بھی عمل کر رہا ہو، خدا تعالیٰ کا تصور اس سے جدا نہ ہو۔

صلوٰۃ سے متعلق ارشاد نبوی علیہ الصلوٰۃ و السلام ہے:

’’جب تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔‘‘

اس ارشاد مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل ذہنی رجوع ہے۔

چنانچہ صلوٰۃ محض جسمانی اعضاء کی حرکت اور مخصوص الفاظ کے دہرانے کا نام نہیں ہے۔ نماز میں قیام، رکوع و سجود اور تلاوت جسمانی وظیفہ ہے اور رجوع الی اللہ وظیفہ روح ہے۔ صلوٰۃ اپنی ہیئت ترکیبی میں جسمانی اور فکری دونوں حرکات پر مشتمل ہے۔ جس طرح جسمانی اعمال ضروری ہیں اسی طرح تصور و توجہ کا موجود ہونا بھی لازمہ صلوٰۃ ہے۔ ان دونوں اجزاء کو تمام تر توجہ سے پورا کرنا اور ان کی حفاظت کرنا قیام صلوٰۃ ہے۔ مراقبہ کی جو تعریف و تشریح ہم گذشتہ ابواب میں کر چکے ہیں اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز وہ مراقبہ ہے جس میں جسمانی اعمال و حرکات کے ساتھ اللہ کی موجودگی کا تصور کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص مندرجہ بالا آداب و قواعد کے ساتھ مسلسل نماز ادا کرتا ہے تو اس کے اندر انوار الٰہی ذخیرہ ہونے لگتے ہیں اور انوار کا یہ ذخیرہ روحانی پرواز کا سبب بنتا ہے۔

ذکر و فکر:

قرآن پاک کے ارشادات اور دین کی تعلیمات میں ذکر کو بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ قرآن و حدیث میں تواتر کے ساتھ ذکر کرنے کی تلقین موجود ہے۔ صلوٰۃ کو بھی ذکر کہا گیا ہے اور صلوٰۃ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اسے ذکر الٰہی کے لئے قائم کیا جائے۔

ذکر کے لغوی معنی یاد کرنے کے ہیں۔ تذکرہ کرنے کو بھی ذکر کہتے ہیں۔ اس لیے کہ تذکرہ کرنا کسی کو یاد کرنے کا اظہار ہے۔ آدمی جب کسی کا نام لیتا ہے، اس کی صفت بیان کرتا ہے تو یہ عمل اس کا ذہنی تعلق مذکور کے ساتھ قائم کرتا ہے۔ یاد کرنا اور زبان سے تذکرہ کرنا ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ عام زندگی میں اس کی مثالیں مل سکتی ہیں۔ اگر ایک شخص کسی سے قلبی لگاؤ رکھتا ہے تو اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زبان سے تذکرہ کرتا ہے بلکہ دل پر بھی اسی کا خیال غالب رہتا ہے۔

دین کی تعلیمات کا مدار اللہ کی ذات ہے۔ اور دین کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کا قلبی رشتہ اللہ کی ذات اقدس سے قائم ہو جائے اور یہ رشتہ اتنا مستحکم ہو جائے کہ قلب اللہ کی تجلی کا دیدار کر لے۔ چنانچہ اس بات کے لئے تمام اعمال و افعال چاہے وہ جسمانی ہوں یا فکری ، اللہ کی ذات سے منسلک کیا گیا ہے تا کہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اللہ کا خیال ذہن کا احاطہ کر لے۔اس کیفیت کو حاصل کرنے میں ذکر کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ذکر کا مقصد یہی ہے کہ بار بار اللہ کے نام کو دہرانے سے ذہن پر اللہ نقش ہو جائے۔

ذکر کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ کے کسی اسم یا صفت کو زبان سے بار بار دہرایا جائے۔ جب تک کوئی شخص اس عمل میں مشغول رہتا ہے اس کا ذہن بھی کم و بیش اسی خیال پر قائم رہتا ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر ذہن ذکر سے ہٹ بھی جاتا ہے لیکن ذکر کی میکانکی حرکت غیر شعوری ارادے کو ذکر سے ہٹنے نہیں دیتی۔ اس مرتبے کو اہل روحانیت نے ذکر لسانی کہا ہے یعنی اللہ کے کسی اسم کو زبان سے دہراتے ہوئے خیال کو ذکر پر قائم رکھنا۔

کسی اسم کو مسلسل دہرانے سے ایک ہی خیال ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ شعوری ارتکاز بڑھنے لگتا ہے اور ذہن کو ایک خیال پر قائم رہنے کی مشق ہو جاتی ہے جب ایسا ہوتا ہے تو ذاکر زبان سے الفاظ ادا کرنے میں بار محسوس کرتا ہے اور عالم خیال میں الفاظ ادا کرنے میں اسے سرور حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ ذکر لسانی سے ہٹ کر ذکر خفی کرنے لگتا ہے۔ اس درجے کو ذکر قلبی کہا جاتا ہے۔

پھر ایک موقع ایسا آتا ہے کہ آدمی خفی طور پر اسم کو دہرانے میں بھی ثقل محسوس کرتا ہے بلکہ اسم کا خیال اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ عالم تصور میں پوری وجدانی کیفیت کے ساتھ اسم کے خیال میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کیفیت کو ذکر روحی کہتے ہیں اور ذکر روحی کا دوسرا نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ یہ ہے کہ اللہ کا خیال اس طرح قائم ہو جائے کہ توجہ اللہ کی طرف سے نہ ہٹے۔

مزید وضاحت کے لئے ایک بار پھر اجمالاً ذکر کو بیان کیا جاتا ہے اگر ایک شخص اسم قدیر کا ذکر کرتا ہے تو پہلے مرحلے میں زبان سے اسم قدیر پڑھتا ہے۔ دوسرے درجے میں اسم قدیر کو عالم خیال میں خفی طور پر ادا کرتا ہے لیکن زبان سے لفظ ادا نہیں کرتا۔ تیسرے مرتبے میں اسے ذہنی طور پر بھی اسم کو دہرانے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اسم قدیر بصور ت خیال و تصور اس کے ذہن پر محیط ہو جاتا ہے۔ ذکر کا یہ مرتبہ یا طریقہ جس میں کوئی شخص اسم کے معانی کا تصور قائم رکھتا ہے، مراقبہ کہلاتا ہے۔ ذکر کے تمام طریقوں کا مقصد ذاکر کے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ اس کی توجہ کسی اسم کے اندر جذب ہو جائے۔

پہلے پہل ذاکر مراقبہ میں خیال کو قائم کرتا ہے لیکن مسلسل توجہ سے یہ خیال اس کے تمام ذہنی و جسمانی افعال کے ساتھ اس کے شعور پر غالب آ جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ مسلسل ربط حاصل کر لیتا ہے اور کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا جب مراقبہ کی کیفیت اس پر طاری نہ ہو۔ جب مراقبہ کی یہ کیفیت شعور کا حصہ بن جاتی ہے تو ذاکر کی روح عالم ملکوت کی طرف صعود کرتی ہے اور وہ کشف و الہام سے سرفراز ہوتا ہے۔

مذاہب عالم:

دنیا میں رائج وسیع مذاہب چار ہیں۔ عیسائیت، بدھ مت، اسلام اور ہندو مت۔ ان تمام مذاہب کی تعلیمات یا ان کے بانیوں کی زندگیوں میں مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ عیسائیت کے ضمن میں حضرت عیسیٰ ؑ کے مراقبے کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:

’’خدا کی بادشاہت تمہارے اندر ہے، اسے اپنے اندر تلاش کرو۔‘‘

حضرت موسیٰ ؑ نے چالیس رات کوہ طور پر غور و فکر (مراقبہ) کیا۔

اسلام اور حضرت محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ میں غار حرا کے مراقبہ کو ہم بیان کر چکے ہیں۔

بھگوت گیتا اہل ہند کی مقدس کتاب ہے۔ گیتا میں شری کرشن جی اور راجہ ارجن کے وہ مکالمات درج ہیں جو مہا بھارت کی جنگ سے قبل ارجن نے کرشن جی سے کئے۔ اور شری کرشن جی نے بھگوت گیتا کے مطابق ان کے جوابات دیئے۔

راجہ ارجن نے کرشن جی سے پوچھا۔’’آپ ذہن پر قابو(مراقبہ) حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں، آپ خود کو پہچاننے کی بات کرتے ہیں، لیکن میں اپنے ذہن کو بے حد منتشر پاتا ہوں۔‘‘

سری کرشن جی نے فرمایا۔۔۔

’’جو تم کہہ رہے ہو، صحیح ہے۔ لیکن مناسب ذرائع اختیار کر کے، استغناء کا عمل اپنا کر اور مسلسل مراقبہ کے ذریعے منتشر ذہن یکسو کیا جا سکتا ہے۔‘‘

یوگا ہندومت سے ماخوذ ہے۔ دو ہزار تین سو سال پہلے ’’پتا نجلی مہارشی‘‘ نے اپنی کتاب ’’یوگاسوترا‘‘ میں یوگا کا فلسفہ پیش کیا تھا۔ یوگا کی مشقوں میں جسمانی صحت کیلئے ورزشیں اور روحانی صلاحیتوں کو متحرک کرنے کے لئے ’’مراقبہ‘‘ کے بارے میں تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔

یوگا سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ’’ملنا‘‘ یا ’’ملاپ‘‘ ہے۔

آسن کے معنی ’’بیٹھنا‘‘ ہیں۔

یوگا سوترا سے مراد ورزش ہے۔

یوگا کے آسنوں کی تعداد 84ہے۔ یوگا کے اکثر آسن جانوروں کی حرکات کو دیکھ کر متعین کئے گئے ہیں۔

یوگا ورزشیں جسم میں جسمانی بیماریوں کے خلاف دفاغ کی قوت میں اضافہ کرتی ہیں اور روح میں بالیدگی کا سبب بنتی ہیں۔

مہاتما بدھ کی زندگی میں بھی مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مہاتما بدھ جب اپنی سلطنت کو خیر باد کہہ کر معرفت اور حقیقت کی تلاش میں نکلے تو آپ نے چھ سال تک سخت ریاضتیں کیں اور بالآخر ’’گیا‘‘ کے مقام پر ایک گھنے درخت کے نیچے مراقبے میں بیٹھ گئے۔ بدھا صاحب مسلسل چالیس دن تلاش حق میں مراقب رہے۔ شیطانی قوتوں نے طرح طرح کے روپ میں ظاہر ہو کر خلل اندازی کی لیکن آپ ثابت قدم رہے۔ روایت کے مطابق انتالیسیویں رات آپ کو گیان مل گیا۔ اور معرفت کی روشنی ظاہر ہو گئی۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات میں جو آٹھ بنیادی نکات بیان کئے جاتے ہیں ان میں آٹھواں نکتہ فکر کی پاکیزگی اور مراقبہ ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔