Topics
مراقبہ کرنے سے آدمی کے اندر ایسی روشنیاں اور لہروں کا ذخیرہ بڑھنے لگتا ہے۔ جو کشش ثقل کی نفی کرتی ہیں۔ ان روشنیوں کی بدولت طالب علم ایسی کیفیات سے گزرتا ہے جن میں ثقل نہیں ہوتا۔ مثلاً مراقبہ کرتے ہوئے یا چلتے پھرتے، بیٹھے لیٹے وزن کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ کبھی آدمی خود کو روشنیوں کا بنا ہوا دیکھتا ہے۔ مراقبہ کرتے ہوئے بے وزنی کی کیفیت میں جسم معلق ہو جاتا ہے۔ آدمی خود کو خلاء میں پرواز کرتے دیکھتا ہے۔ کھلی اور بند آنکھوں سے مختلف رنگوں کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ دماغ کے اندر روشنی کے جھماکے(Spark) محسوس ہوتے ہیں۔ جسم میں سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اور برقی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ روشنی کی تیزی اور ہجوم سے بعض اوقات جسم کو جھٹکے لگتے ہیں۔ سکون اور اطمینان کا احساس گہرا ہو جاتا ہے۔ غو رو فکر کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ اور اس طرح کی دوسری بیشمار کیفیات و واردات روشنی کے نظام میں رنگینی اور روحانی توانائی میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
* مراقبہ کے لئے آنکھیں بند کرتا ہوں تو آنکھوں کے گوشوں میں دودھیا رنگ کی روشنی بکھرتی ہے۔ اس وقت یعنی مراقبہ کے دوران خیالات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ کبھی نیند سی طاری ہو جاتی ہے اور کبھی صرف ’’اللہ‘‘ کا تصور ہوتا ہے۔ مراقبہ کے دوران اور بھی کئی رنگوں میں روشنی نظر آتی ہے۔ مثلاً نیلی، سرخ، سبز وغیرہ۔ اگر خیالات کی یلغار زیادہ ہو جائے تو میں دل ہی دل میں یا حیی یا قیوم کا ورد کرتا ہوں۔ مراقبہ کے بعد کئی حالتیں پیش آتی ہیں۔ کبھی جسم بھاری، کبھی بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔ کبھی بالکل احساس نہیں ہوتا کہ میرا جسم کہاں ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ میرا جسم اوپر اٹھ جاتا ہے۔ کبھی دماغ میں سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ اور ایسی ہی کچھ اور کیفیات مرتب ہوتی ہیں۔ مراقبہ کے دوران سرور انگیز لہریں دماغ کا احاطہ کرتی ہیں۔ دماغ پر مدہوشی چھا جاتی ہے اور اسی حالت میں نیند آ جاتی ہے۔ کبھی درمیان میں خواب جیسی کیفیات ہوتی رہتی ہیں۔ ایک بار یوں ہوا کہ میں اڑتا ہوا اوپر اٹھ گیا۔ گرد و پیش کی کچھ خبر نہ رہی۔ مراقبہ کے دوران یوں گم ہونا چاہتا ہوں کہ سانس کی آمد و رفت بھی ناگوار گزرتی ہے۔ اس دوران استاد محترم کا تصور بھی آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی مراقبہ کی حالت میں سو جاتا ہوں اور مختلف جگہوں کی سیر کرتا ہوں۔ یہ مناظر اس قدر حسین ہوتے ہیں کہ احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ بہرحال اس قسم کی کئی کیفیات ہوتی رہتی ہیں۔ (ہارون حمید۔
لاہور)
* مراقبہ کے شروع میں سبزی مائل پیلی روشنی کا ایک نقطہ نظر آیا۔ پھر چارپائی اور خود کو ہلتا ہوا محسوس کیا۔ ذرا سی دیر کے لئے دائیں آنکھ کی طرف روشنی کی گول آنکھ نما چیز نظر آئی۔ مراقبہ شروع کرتے ہی سروزنی اور کندھے قدرے بوجھل محسوس ہوئے۔ جسم کا کھنچاؤ اوپر کی طرف محسوس ہوا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرے سائے نظر آئے۔ ایک دفعہ ذرا سا سرخ رنگ نظر آیا۔ کمر میں کچھ محسوس ہوتا ہوا سر کے پچھلے حصہ تک آیا۔ جسم میں خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۔ جیسے کسی چیز کی کشش میں آ گیا ہوں۔ (مصباح الدین)
* مراقبہ تقریباً 15منٹ تک کیا۔ تصور فوراً قائم ہو گیا۔ جسم کے تمام حصوں پر بارش کی بوندیں گرتے محسوس ہونے لگیں۔ سر پر تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بارش کی تیزی کے باعث گڑھے پڑ رہے ہوں۔ اس خیال میں اس قدر محو ہو گئی کہ جسم بے حس و حرکت محسوس ہو رہا تھا۔ دیکھا کہ شمال کی طرف ایک بہت بڑا دروازہ کھلا ہے اور اس دروازے سے سفید روشنی آ رہی ہے۔ یہ روشنی میرے جسم پر پڑ رہی ہے۔ پھر آسمان سے روشنیوں کی بارش برسنے لگی اور یہ بارش میرے جسم کے داہنے حصے پر محسوس ہو رہی ہے۔ ایک دم اس بارش کی رفتار بڑھی اور روشنیاں اس شدت سے مجھ پر گریں کہ جسم میں جھٹکا محسوس ہوا۔
* فجر کی نماز کے بعد مراقبہ کیا۔ دیکھا کہ میں مجسمۂ نور ہوں اور میرے ارد گرد نور کے ہالے خود بخود بن گئے اور روشنی خارج ہونے لگی۔ چنانچہ یہ میرے دو جسم ہیں ایک تو میں خود ہوں جو کہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور دوسرا جو کہ پیکر نور ہے۔
اس کے علاوہ میں اپنے آپ میں چند تبدیلیاں محسوس کر رہا ہوں وہ یہ کہ اگر کوئی شخص مجھے مخاطب کرنا چاہتا ہے تو مجھے اس کا علم پہلے ہو جاتا ہے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے۔ وہ بھی مجھے معلوم ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر میں چاہوں کہ فلاں شخص مجھ سے آ ملے یا مجھے اس سے ملنا چاہئے تو وہ بغیر کوشش کے مجھے مل جاتا ہے یعنی راستہ گزرتے ہوئے اور بعض اوقات کسی کام کے غرض سے مل جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اگر کوئی خاص واقعہ ہونا ہو تو مجھے بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے۔ (محمد اسلم گوہر۔ منگلا ڈیم)
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔