Topics

مدارج

اپنی ذات Innerسے واقفیت حاصل کرنے اور روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لئے مسلسل مراقبہ کرایا جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ہماری باطنی صلاحیتیں آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں اور ہم سیڑھی بہ سیڑھی چڑہتے ہوئے اپنی ذات کا عرفان حاصل کر لیتے ہیں۔

یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم کوئی ہنر یا فن حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کسی صلاحیت کو بیدار کرنا ہمارے پیش نظر ہوتا ہے تو کسی قاعدے کلیے کے تحت اس کی مشق کرتے ہیں۔ مسلسل مشق کے نتیجے میں صلاحیت بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور بالآخر ہم اس فن میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔ مثلاً ہم مصوری سیکھنا چاہتے ہیں تو کسی استاد کی نگرانی میں کاغذ پر لکیریں بناتے ہیں اور ان لکیروں کی ترتیب سے کوئی شکل بن جاتی ہے۔ شروع شروع میں پنسل ارادے کا ساتھ نہیں دیتی۔ لکیروں کی لمبائی، چوڑائی اور قوس صحیح نہیں بنتے لیکن مشق کے نتیجے میں ہم اپنے ارادے کے مطابق متناسب خطوط بنانے پر قادر ہو جاتے ہیں۔ 

مثال:

ایک نومولود بچہ اپنے گرد و پیش کو اس طرح نہیں سمجھتا جس طرح ایک بالغ اور باشعور شخص سمجھتا ہے۔ وہ چیزوں کو دیکھتا ہے لیکن ان کی معنویت اور استعمال ذہن میں نہیں آتا۔ ماحول کا علم رفتہ رفتہ بچے کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اور شعوری بلوغت تک پہنچنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ ابتداء میں بچے کو صلاحیتوں کے استعمال میں مشکل پیش آتی ہے۔ چلنا سیکھتا ہے تو پہلے گھٹنوں کے بل چلتا ہے۔ پیروں پر کھڑا ہوتا ہے تو کافی عرصہ تک توازن قائم نہیں ہوتا۔ ایک عرصہ کی جدوجہد کے بعد وہ پیروں پر چلنے کے قابل ہوتا ہے۔ بولنے کی ابتداء ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے ہوتی ہے۔ 

پھر ادھورے جملےبولنا آ جاتے ہیں۔ اکثر الفاظ کےمعنی غلط ملط ہو جاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکمل جملے ادا کر کے اپنا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ ذاتی کوشش کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور والدین کی نگرانی میں بچہ کئی سال کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ ٹھیک طرح سے لکھ اور پڑھ سکے۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ جب بھی آدمی کے اندر کوئی نئی صلاحیت کروٹ لیتی ہے، شعور اس کو بتدریج جذب کرتا ہے۔ جس طرح ایک بچہ مراحل سے گزر کر کوئی علم حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح بالغ اور باشعور آدمی کو بھی کسی صلاحیت کے بیدار کرنے میں مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کم و بیش یہی کیفیت آدمی کی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر باطنی حواس متحرک ہوتے ہیں۔ چونکہ شعور کے لیے باطن حواس کا عمل نیا ہوتا ہے اس لیے انہیں سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ مراقبہ کے لئے آنکھیں بند کی جائیں اور ایک دن یا چند دنوں میں وہ سارے تجربات و مشاہدے سامنے آ جائیں جو مراقبہ کا حاصل ہیں مسلسل مشق اور دلچسپی کے ذریعے کوئی شخص درجہ بہ درجہ مراقبے کی دنیا میں سفر کرتا ہے۔ پہلے پہل ذہنی مرکزیت نہیں ہوتی لیکن مشق کے نتیجے میں یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے ذہنی یکسوئی میں اضافہ ہوتا ہے باطنی حواس میں حرکت بیدار ہوتی رہتی ہے۔ آدمی شعوری قوت کی مناسبت سے روحانی تجربات اور باطنی مشاہدات سے گزرتا ہے۔ واردات و کیفیات میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت پیدا ہوتی ہے مراقبہ میں ملکہ پیدا ہو جانے کے بعد روحانی صلاحیتوں کا ارادے کے ساتھ اسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح دوسری صلاحیتیں استعمال ہوتی ہیں۔

ان مراحل میں طالبات اور طلباء کو ایسے روحانی استاد کی ضرورت ہوتی ہے جواسے بچے کی طرح انگلی پکڑ کر چلنا سکھائے اور شاگرد خود اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں مہارت حاصل کر لے۔

ہر شخص کی واردات و کیفیات الگ الگ ہوتی ہیں۔ اور اس کا تعلق اس کی روحانی اور شعوری سطح پر ہوتا ہے۔ چنانچہ انفرادی طور پر روحانی مشاہدات کا مکمل تجزیہ ایک ماہر استاد ہی کر سکتا ہے۔ لیکن شعوری قوت کے لحاظ سے مراقبے کا طالب علم جن مدارج سے گزرتا ہے وہ ہر شخص میں کم و بیش ایک جیسے ہوتے ہیں۔ قوت و استعداد کے ان مدارج اور منازل کی تفصیل اس طرح ہے۔

غنود:

غنود مراقبہ کا ابتدائی درجہ ہے۔ جب کوئی شخص مراقبہ شروع کرتا ہے تو اکثر اس پر غنودگی یا نیند طاری ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ذہن پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے اسے نہ نیند کا نام دیا جا سکتا ہے نہ بیداری کا، یہ خواب اور بیداری کی درمیانی حالت ہوتی ہے لیکن شعور پوری طرح باخبر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مراقبہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دیکھا ہے لیکن کیا دیکھا یہ یاد نہیں رہتا۔

1۔ 10بج کر 17منٹ پر مراقبہ کیا۔ جلد ہی یکسوئی قائم ہو گئی۔ میں بار بار غنودگی کے عالم میں چلا جاتا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں کسی کے پاؤں دھو رہا ہوں۔ پھر غنودگی کے عالم میں دیکھا کہ جیسے میرے جسم سے ایک سیاہ رنگ کا سایہ جو کہ غیر ٹھوس ہے، نکل کر سامنے کی دیوار میں جذب ہوگیا۔ (محمد اکمل۔ لاہور)

2۔ مراقبہ میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا تصور کرتا ہوں۔ مراقبہ کے دوران مسلسل ذہنی یکسوئی رہتی ہے۔ تصور کرتے کرتے غنودگی کی کیفیت خود بخود طاری ہو جاتی ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے تصور کا ہلکا سا عکس ذہن میں آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ میں اس پر توجہ مرکوز کرتا ہوں اور خود بخود غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ تقریباً نصف گھنٹہ مراقبہ کرتا ہوں لیکن تصور کی ابتدائی کیفیت کے علاوہ اور کوئی کیفیت ذہن نشین نہیں ہوتی۔ اللہ کے فضل سے اب ذہن میں خوب پاکیزگی پیدا ہو گئی ہے۔(سید طاہر جلیل)

3۔ غنودکی حالت میں نظر آیا کہ استغفار کی تفسیر سمجھائی جا رہی ہے۔ ایک دفعہ مراقبہ میں غنودگی کے عالم میں نظر آیا کہ جنات سے ملاقات ہوئی ہے۔ تھوڑا سا ڈر محسوس ہوا۔ ملاقات کی تفصیل یاد نہیں۔ ہر وقت یا حیی یا قیوم کا ورد کرتی ہوں اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ میرے سامنے موجود ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے بھی احساس غالب رہتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔ کبھی رقت طاری ہو جاتی ہے جی چاہتا ہے کہ دل کھول کر روؤں۔ ایک دن غنودگی کی کیفیت اس قدر زیادہ ہو گئی کہ یہ احسا س ہوا کہ کائنات کے ذرے ذرے میں خدا موجود ہے، تب محسوس ہوا کہ میرا کوئی وجود نہیں۔ (نسرین)



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔