Topics
مسلسل مراقبہ اور استاد کی توجہ و نگرانی کے نتیجے میں شاگرد کے اندر روشنی کا ذخیرہ ہو جاتا ہے اور شعور کا آئینہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس وقت شاگرد کی روحانی سیر شروع ہو جاتی ہے۔ اس سیر کے دو مراتب و مدارج ہیں۔ پہلے مرتبے میں آدمی تمام مشاہدات و انکشافات کو اس شعور کے ساتھ دیکھتا ہے کہ وہ بعد (دوری) میں واقع ہیں۔ یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچ جاتا ہے اور عرش پر تجلی صفات کی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے۔ اس طرز مشاہدہ کو سیر آفاق کہتے ہیں۔
جب سیر آفاقی پوری ہو جاتی ہے اور طالب علم پر اللہ کا فضل و کرم ہوتا ہے۔ تو سیر انفس شروع ہوتی ہے۔ اس درجے میں واردات و مشاہدات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کوئی شخص تمام عالم کو اپنے نقطہ ذات کا حصہ دیکھتا ہے اور موجودات ذات کے اندر نظر آتی ہیں۔ اہل اللہ اس طرز ادراک کو سیر انفس کہتے ہیں۔ سیر انفس کی انتہا پر عارف باللہ، اللہ کو تجلی کی صورت میں ورائے عرش دیکھتا ہے۔ قرآن پاک کی ان دو آیات میں سیر انفس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
1۔ ’’وہ تمہارے نفسوں میں ہے، کیا تم دیکھتے نہیں۔‘‘
2۔ ’’ہم بہت جلد دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق اور انفس میں ، یہاں تک کہ کھل جائے گا ان پر حق۔‘‘
(پارہ 25آیت نمبر 1)
جب کوئی شخص اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کی باطنی نظر متحرک ہو جائے تو اس سے یہ مراقبہ کرایا جاتا ہے کہ تمام عالم ایک آئینہ ہے جس پر انوار الٰہی کا عکس پڑ رہا ہے۔ اس تصور کے ذریعے سیر آفاقی شروع ہو جاتی ہے۔ اگلے مرحلے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ صاحب مراقبہ خود ایک آئینہ ہے۔ جس میں انوار و صفات الٰہی کا عکس پڑ رہا ہے۔ یہ تصور سیر انفس کی ابتداء کرتا ہے۔ اس سیر کی انتہا پر اپنے اندر موجود آئینے کی بھی نفی کر دی جاتی ہے۔ تا کہ ذات باری تعالیٰ کا ادراک کمال کو پہنچ جائے۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ طالب علم پہلے یہ تصور کرتا ہے کہ اس کا قلب عرش سے ایک نسبت و تعلق رکھتا ہے چنانچہ صاحب مراقبہ عروج کرتا ہوا عرش تک پہنچ جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں وہ مراقبہ میں اور چلتے پھرتے ان آیات قرآنی کا تصور اپنے اوپر محیط کر دیتا ہے کہ:
1۔ ’’وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘‘
2۔ ’’وہ تمہاری رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے۔‘‘
3۔ وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے، کیا تم نہیں دیکھتے۔‘‘ (قرآن)
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔