Topics
مراقبہ کے ماہرین نے اپنے شاگردوں کو مراقبے کے مختلف طریقے تعلیم کیے ہیں۔ یہ مراقبے شاگرد کی روحانی ترقی میں کلاسوں کا کام کرتے ہیں۔ تا کہ روحانی صلاحیتیں یکے بعد دیگرے مرحلہ وار بیدار ہوں۔ جب شاگرد مراقبے کے کسی خاص طریقے پر قدرت حاصل کر لیتا ہے تو اسے اگلے مرحلے کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے۔
مراقبے میں کئے جانے والے تصور کی بنیاد پر مراقبے کی مختلف قسمیں اور ان کے مقاصد متعین ہو جاتے ہیں۔ کشف القبور کا مراقبہ اس لئے کرایا جاتا ہے کہ شاگرد مرنے کے بعد کی دنیا کو دیکھ لے۔ اگر روشنی کے جسم کو طاقت دینا مقصود ہے تو روشنیوں کا مراقبہ تعلیم کیا جاتا ہے۔ نور کے مشاہدے کے لئے مراقبہ نور کیا جاتا ہے۔ اگر روحانی استاد کی طرز فکر اور صفات کو شاگرد کے اندر راسخ کرنا مقصود ہے تو استاد کا تصور کرایا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ شاگرد کی طبیعت، صلاحیت اور ضرورت کے مطابق مختلف مراقبے تلقین کئے جاتے ہیں۔ اس کا تعین ایک ماہر اور کامل استاد ہی کر سکتا ہے جو علمی اور عملی اعتبار سے مراقبے کی منازل طے کر چکا ہو۔
تصور کے فرق اور عملی اعتبار سے مراقبے کی اقسام بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے موجودہ باب میں مراقبہ کے وہ طریقہ بیان کئے گئے ہیں۔ جو اہمیت کے لحاظ سے سر فہرست ہیں دیگر طریقے کسی نہ کسی طرح ان مراقبوں کی شاخیں ہیں۔
چند مراقبوں کے علاوہ ہر مراقبے کے ساتھ ایک عملی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ تا کہ ہر شخص اس کورس یا پروگرام کی مدد سے مراقبہ کے عمومی اور خصوصی فوائد حاصل کر سکے۔
مراقبے کے بعض پروگرام خصوصی مقاصد کے لئے ہیں۔ جیسے کشف القبور کا مراقبہ، ہاتف غیبی کا مراقبہ، ذہنی سکون کے حصول کا مراقبہ وغیرہ۔ ان پروگراموں پر عمل کر کے کسی خاص صلاحیت کو بیدار کیا جاسکتا ہے یا مخصوص فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دیگر مراقبے انسان کے باطنی حواس کو متحرک کرتے ہیں۔ ان مراقبوں میں کسی خاص طرز سے تیسری آنکھ کو بیدار کیا جاتا ہے۔
وضاحت:
پروگرام مرتب کرتے ہوئے ایک اوسط طالب علم کو ذہن میں رکھا گیا ہے اور پروگرام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ ذہن پر بار نہ پڑے اس کے باوجود استاد کی کمی کا جو خلاء پایا جاتا ہے اس کو ادارہ نے پر کرنے کا عزم کیا ہے اس طرح کہ طالب علم اپنی واردات و کیفیات ماہانہ رپورٹ کی صورت میں بھیجتے رہیں تا کہ کسی خاص ہدایت کی ضرورت محسوس ہو تو کر دی جائے۔
پروگرام وضع کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کو سامنے رکھا گیا ہے۔
1۔ذہن و دماغی کی کارکردگی کو بہتر بنانا۔
2۔ ذہن کی خصوصی قوتوں مثلاً قوت حافظہ، قوت متخیلہ، قوت تخلیق اور رفتار میں اضافہ کرنا۔
3۔ باطنی صلاحیتوں مثلاً ٹیلی پیتھی، کشف وغیرہ کو بیدار کرنا۔
4۔ غور و فکر اور وجدان کی قوتوں کو جلا بخشنا۔
5۔ طالب علم کی روحانی بصارت یا تیسری آنکھ کو متحرک کرنا۔
کسی بھی پروگرام پر عمل کرنے سے پہلے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1۔ مراقبہ وقت کی پابندی کے ساتھ (15) پندرہ سے بیس منٹ کیا جائے۔ کامیابی نہ ہو تو حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں۔ نتائج و فوائد کا انحصار طالب علم کی مستقل مزاجی اور دلچسپی پر منحصر ہے ۔بعض طالب علم آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں اور پابندی سے مشق کرنے کی بدولت ترقی کی رفتار معتدل رہتی ہے۔ بعض طالب علم ابتداء میں تیزی سے ترقی کرتے ہیں لیکن بعد میں رفتار کم ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ شروع شروع میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کرتے لیکن آگے جا کر رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے۔ غرض طبیعت کے فرق سے ترقی کے مدارج الگ الگ ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر جو چیز آہستہ آہستہ طبیعت میں داخل ہو وہ زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔
2۔ ذوق و شوق یا دلچسپی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی طرف سے پروگرام میں کوئی تبدیلی کر دیں یا پروگرام سے تجاوز کر جائیں۔ دلچسپی سے مراد یہ ہے کہ مراقبہ اور دیگر مشقوں کو پروگرام میں دیئے ہوئے لائحہ عمل کے مطابق پوری توجہ سے کیا جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔