Topics

فتح

اعلیٰ ترین شہود کو فتح کہتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو شہود کا کمال میسر آ جائے تو وہ عالم غیب کا مظاہرہ کرتے وقت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا بلکہ از خود اس کی آنکھوں پر ایسا وزن پڑتا ہے جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتیں اور کھلی رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کے غلاف ان روشنیوں کو جو نقطہ ذات سے منتشر ہوتی ہیں سنبھال نہیں سکتے اور بے ساختہ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ جس سے آنکھوں کے کھلنے اور بند ہونے یعنی پلک جھپکنے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔

جب سیر، شہود یا معائنہ کھلی آنکھوں سے ہونے لگتا ہے تو اس کو فتح کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فتح میں انسان ازل سے ابد تک معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ کائنات کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے۔ لاشمار کہکشانی نظام اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں اور لاحساب زمانی دور گذار کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں۔

فتح کا ایک سیکنڈ یا ایک لمحہ بعض اوقات ازل تا ابد کے وقفے کا محیط بن جاتا ہے۔ مثلاً ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی سے الگ کوئی نظام ایسا نہیں جس کی روشنی ہم تک کم و بیش چار برس سے کم عرصے میں پہنچتی ہو۔ وہ ایسے ستارے بھی بتاتے ہیں جن کی روشنی ہم تک ایک کروڑ سال میں پہنچتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم اس سیکنڈ میں جس ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ایک کروڑ سال پہلے کی ہیئت ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ لمحہ ایک کروڑ سال پہلے کا لمحہ ہے۔ یہ غور طلب ہے کہ ان دونوں لمحوں کے درمیان جو ایک اور بالکل ایک ہیں۔ ایک کروڑ سال کا وقفہ ہے۔ یہ ایک کروڑ سال کہاں گئے؟

معلوم ہوا کہ یہ ایک کروڑ سال فقط طرز ادراک ہیں۔ طرز ادراک نے صرف ایک لمحہ کو ایک کروڑ سال پر تقسیم کر دیا ہے۔ جس طرح طرز ادراک گذشتہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھتی ہے۔ اس ہی طرح ادراک آئندہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھ سکتی ہے۔ پس! یہ تحقیق ہوتا ہے کہ ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ ایک لمحہ ہے جس کو طرز ادراک نے ازل سے ابد تک کے مراحل پر تقسیم کر دیا ہے۔ ہم اس ہی تقسیم کو مکان (Space) کہتے ہیں۔ گویا ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ مکان ہے اور جتنے حوادث کائنات نے دیکھے ہیں وہ سب ایک لمحہ کی تقسیم کے اندر مقید ہیں۔ یہ ادراک کا اعجاز ہے جس نے ایک لمحہ کو ازل تا ابد کا روپ عطا کر دیا ہے۔

ہم جس ادراک کو استعمال کرنے کے عادی ہیں وہ ایک لمحہ کی طوالت کا مشاہدہ نہیں کر سکتا، جو ادراک ازل سے ابد تک کا مشاہدہ کر سکتا ہے اس کا تذکرہ قرآن کی سورۃ القدر میں ہے۔

ترجمہ:’’ہم نے یہ اتارا شب قدر میں۔ اور تو کیا سمجھا کیا ہے شب قدر؟ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ امان ہے وہ رات صبح نکلنے تک۔‘‘

شب قدر وہ ادراک ہے جو ازل سے ابد تک کے معاملات کا انکشاف کرتا ہے۔ یہ ادراک عام شعور سے ساٹھ ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ساٹھ ہزار گنا کی مناسبت ہے۔ اس ادراک سے انسان کائناتی روح، فرشتوں اور ان امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ کرتا ہے۔

بولٹن مارکیٹ سے بس میں سوار ہو کر گھر آ رہا تھا۔ بس میں اس قدر رش تھا کہ لگتا تھا کہ کسی بڑے ڈبے میں سامان کی طرح مسافروں کو پیک کر دیا گیا ہے۔ دھوئیں اور جلے ہوئے تیل کے ساتھ آدمیوں کے پسینے کی بو بھی بس میں بسی ہوئی تھی۔ بس چلنے پر کھڑکی سے ہوا کا جھونکا آتا تو متعفن پسینے کی بو سے دماغ پھٹنے لگتا۔ بس میں سوار مسافر ایسے بھی تھے جن کے سفید براق لباس سینٹ کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر تھے۔ کچھ لوگوں نے سر، میں ایسے تیل ڈالے ہوئے تھے کہ جن میں دوائیوں کی خوشبو موجود تھی۔ خوشبو اور بدبو کے اس امتزاج سے دماغ بھاری ہو گیا اور دم گھٹنے لگا۔ جب یہ صورت واقع ہوئی تو یکایک ذہن میں خیال وارد ہوا کہ آدمی کے اندر اس قدر تعفن کیوں ہے؟ذہن اس خیال پر مرکوز ہو گیا۔ پھر مرکزیت اس قدر بڑھی کہ آنکھیں خمار آلود ہو گئیں۔

دیکھا کہ ایک گول دائرہ ہے۔ اس گول دائرے کے اوپر چھ اور دائرے ہیں۔ ہر دائرہ مختلف رنگوں سے بنا ہوا ہے۔ کوئی دائرہ نیلگوں ہے، کوئی سبز ہے، کوئی سرخ ہے، کوئی سیاہ ہے اور کوئی بے رنگ ہے۔ قوس و قزح کے ان رنگوں میں دلچسپی بڑھی تو یہ چھ دائرے چھ روشن نقطوں میں تبدیل ہو گئے اور یہ بات منکشف ہوئی کہ ہر ذی روح دراصل ان چھ نقطوں کے اندر زندہ ہے۔

ان چھ نقطوں کو جب اور زائد گہرائی میں دیکھا تو نقطوں کے درمیان فاصلہ قائم ہو گیا۔ پہلا نقطہ سر کے بیچ میں نظر آیا۔ دوسرا نقطہ پیشانی کی جگہ، تیسرا نقطہ دائیں پستان کے نیچے، چوتھا نقطہ سینے کے بیچ میں، پانچواں نقطہ دل کی جگہ اور چھٹا نقطہ ناف کے مقام پر دیکھا۔

ناف کے مقام پر جو نقطہ موجود تھا اس میں تاریکی غائب تھی اور اس میں تعفن کا احساس نمایاں تھا۔ بڑی حیرت ہوئی کہ اس قدر روشن اورتابناک نقطوں کے ساتھ یہ کثیف، تاریک اور متعفن نقطہ کیوں ہے؟ اب میری حالت یہ تھی کہ ذہن جسم کو چھوڑ چکا تھا۔ گوشت پوست کے جسم کی حیثیت ایک خالی لفافہ جیسی تھی۔ یہ احساس ہی نہیں رہا کہ میں بس میں سفر کر رہا ہوں دیکھا کہ ہر آدمی کے کندھوں پر دو فرشتے موجود ہیں۔ اور فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں۔ لیکن لکھنے کی طرز یہ نہیں ہے جو ہماری دنیا میں رائج ہے۔ نہ ان کے ہاتھوں میں قلم ہے۔ اور نہ سامنے کسی قسم کا کاغذ ہے۔ فرشتوں کا ذہن کوئی بات نوٹ کرتا ہے اور وہ بات فلم کی ایک جھلی پر نقش ہو جاتی ہے۔ نقش و نگار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی کے ذہن میںذخیرہ اندوزی  اور منافع خوری ہےدوسرے آدمی کے ذہن میں ایذا رسانی اور حسد کے جذبات متحرک ہیں۔ تیسرا آدمی کسی کو قتل کرنے کے درپے ہے۔ یہ آدمی قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے باہر نکلا۔ ایک فرشتے نے فوراً اس کے ذہن میں ترغیب کے ذریعے یہ بات ڈالی کہ قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے اور جان کا بدلہ جان ہے۔ لیکن اس آدمی نے اس ترغیب کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور قدم بقدم اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتا رہا۔ ترغیبی پروگرام پر جب عمل نہیں ہوا تو دوسرے فرشتے نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کر دیا اور اس فلم پر یہ تصویر منعکس ہو گئی کہ وہ بندہ قتل کی نیت سے گھر سے باہر آیا اور اس کے اوپر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ جان کا بدلہ جان ہے۔ یہ بندہ اور آگے بڑھا اور متعین مقام پر پہنچ کر اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ دوسرے فرشتے نے فوراً ہی اس کی فلم بنائی۔

جرم کرنے کے بعد اس بندے کے ضمیر میں ہل چل برپا ہو گئی۔ دماغ میں مسلسل اور تواتر سے یہ بات آتی رہی کہ یہ کام میں نے صحیح نہیں کیا ہے۔ جس طرح میں نے ایک جان کا خون کیا ہے اسی طرح میری سزا بھی یہی ہے کہ مجھے قتل کر دیا جائے۔ ضمیر کی یہ ملامت بھی فلم بن گئی۔

علی ہذا القیاس، تینوں آدمیوں نے اپنے ارادے اور پروگرام کے تحت عمل کیا اور جیسے جیسے اس پروگرام کو پورا کرنے کے لئے ا نہوں نے اقدام کیا، ہر عمل اور ہر حرکت کی فلم بنتی چلی گئی۔ اس کے برعکس ایک آدمی عبادت کے ارادے سے مسجد کی طرف بڑھا۔ مسجد میں پہنچ کر خلوص نیت سے اللہ کے حضور سجدہ کیا۔ خلو ص نیت اللہ کو پسند ہے۔ اللہ کی اس پسندیدگی کے نتیجے میں وہ انعامات و اکرامات کا مستحق قرار پایا۔ گو کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کا عمل مقبول ہوا یا مقبول نہیں ہوا۔ لیکن چونکہ اس کی نیت مخلصانہ تھی اس لئے یہ عمل کرنے کے بعد اس کا ضمیر مطمئن ہو گیا اور اس کے اوپر سکون کی حالت قائم ہو گئی۔ سکون کا اصل مقام جنت ہے۔ ضمیر نے مطمئن ہو کر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ میرا مقام جنت ہے۔ جیسے ہی جنت سامنے آئی، جنت کے اندر تمام انواع و اقسام کے پھل، شہد کی نہریں، حوض کوثر وغیرہسامنے آ گئے۔ جب ضمیر ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر ان انعامات و اکرامات سے فیض یاب ہو چکا تو فرشتے نے ا س جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کر دیا اور یہ ساری کارروائی فلم بن گئی۔

ایک دوسرا آدمی عبادت کے لئے گھر سے باہر آیا۔ ذہن میں کثافت ہے۔ اللہ کی مخلوق کے لئے بغض و عناد ہے۔ اس کا مشغلہ حق تلفی ہے۔ سفاکی، بربریت اور جبر و تشدد اس کا پسندیدہ عمل ہے۔ مسجد میں داخل ہوا۔ نمازپڑھی لیکن ضمیر مطمئن نہیں ہوا۔ ضمیر مطمئن نہ ہونا دراصل وہ کیفیت ہے جس کو دوزخ کی کیفیت کے سوا دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ جب یہ آدمی نماز سے فارغ ہوا اور دل و دماغ کو بے سکون محسوس کیا تو فوراً دوسرے فرشتے نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کیا اور ساری روئیداد فلم بن گئی۔

فرشتو ں نے مجھے بتایا:

اس وقت آپ کے سامنے دو کردار ہیں۔ ایک کردار وہ ہے جس نے ترغیبی پروگرام سے روگردانی کی اور محض اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ہی بھائی کو قتل کر دیا۔ ایک وہ شخص ہے جس نے بظاہر وہ عمل کیا جو نیکو کار لوگوں کا عمل ہے۔ لیکن اس کی نیت میں خلوص نہیں تھا۔ وہ خود کو دھوکا دے رہا تھا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نیت میں خلوص ہے۔ ذہن میں پاکیزگی ہے۔ اور اللہ کے قانون کا احترام ہے۔

آئیے اب ہم ان دونوں گروہوں میں سے ایک ایک فرد کی زندگی کا مطالعاتی تجزیہ کرتے ہیں۔

قتل کرنے والا بندہ جب دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی اور لامتناہی مصروفیات سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے اوپر جرم کا احساس مسلط ہو جاتا ہے۔ دل بے چینی اور دماغ پریشانی کے عالم میں سیدھی حرکت کے بجائے اس طرح گھومتے ہیں کہ یہ پریشانی ذہنی خلفشار اور دماغی کشاکش میں پیش آنے والے آلام و مصائب کی تصویریں بن جاتی ہیں۔ اب فرشتے کی بنائی ہوئی فلم پر نقوش اس بندے کے اپنے ارادے اور اختیار سے گہرے ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان نقوش میں گہرائی واقع ہوتی ہے۔ اس آدمی کے اندر روشن نقطے دھندلے ہونے لگتے ہیں۔ اور یہ دھند بڑھتے بڑھتے اس نقطہ پر جو ناف کے مقام پر ہے محیط ہو جاتا ہے اور اس نقطہ کے اندر روشنیاں تاریکی میں ڈوب جاتی ہیں۔ کسی بندے کے اوپر جب یہ کیفیت وارد ہو جاتی ہے تو تاریکی اور کثافت ایک متعفن پھوڑا بن جاتی ہے اور اس پھوڑے کی سڑاند اس کے خون میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر یہ سڑاند بڑھتے بڑھتے اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ باقی پانچ نقطے اس آدمی سے کافی حد تک لاتعلق ہو جاتے ہیں۔

فرشتوں کی اس تعلیم سے میں مبہوت و ششدر تھا کہ سماوات سے ایک آواز گونجی، وہ آواز گھنٹیوں کی آواز کی طرح تھی۔ جب اس مدھ بھری اور سریلی آواز میں میں نے اپنی تمام تر توجہ مبذول کی تو میری سماعت سے یہ آواز ٹکرائی۔

’’مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر، ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر دبیز پردے ڈال دیئے۔ ایسے ناسعادت آثار لوگوں کے لئے عذاب الیم کی وعید ہے۔‘‘

آواز کا سننا تھا کہ خوف سے دل لرز اٹھا۔ جسم کے سارے مسامات کھل گئے۔ زبان گنگ تھی اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ اتنا رویا، اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی۔ لوگوں نے دیکھا، سمجھے کوئی پاگل ہے۔ کچھ لوگوں نے آوازے کسے، کتنی ستم ظریفی ہے کہ بس میں موجود ایک آدمی نے بھی ہمدردی کا کوئی لفظ زبان سے ادا نہیں کیا اور میں اس عالم بے قراری میں بس سے اتر گیا۔ اس وقت گھر پہنچا، گھر میں اندھیرا تھا، اس غم ناک اور الم آمیز کیفیت کا اثر یہ ہوا کہ نڈھال ہو کر چارپائی پر گر گیا۔ کسک نے درد کی شکل اختیار کر لی۔ لگتا تھا کسی نے دل کے اندر کوئی کیل ٹھونک دی ہے۔ یکایک سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت اور لطف و کرم کی طرف توجہ مبذول ہو گئی۔ اب پھر دیکھا کہ وہ دونوں فرشتے موجود ہیں اور سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے تسلی دے رہے ہیں۔ اس فرشتہ نے، جو نیکی کی فلم بنانے پر متعین تھا، میرے سامنے اپنی بنائی ہوئی فلم کو کھولنا شروع کر دیا اور آنکھوں کے سامنے ایک اسکرین آ گئی۔

یا مظہرالعجائب! ناف کے مقام پر کثیف اور تاریک نقطہ کے بجائے روشن نقطہ آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ اتنا روشن کہ سورج کی روشنی اس کے سامنے چراغ اور چاند کی چاندنی ان نورانی روشنیوں کے سامنے ٹمٹاتا دیا۔۔۔دماغ کے اوپر المناک کثافت دیکھتے ہی دیکھتے دھل گئی۔

وہ شخص جس نے خلو ص نیت سے نماز ادا کی تھی اور جس کے دل میں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی حرمت تھی، موجود تھا۔ اس آدمی کے اندر روشن نقطے کی شعاعیں، سورج کی شعاعوں کی طرح گردش کرنے لگیں۔ ایک سکون کا عالم تھا جو ٹھہرے ہوئے سمندر کا سکوت تھا۔ روشن روشن قلب میں جل ترنگ کا سماں تھا۔ کیف و مستی کا عالم تھا اور اس کیف و مستی کے عالم میں وہ شخص جنت کی پر فضا وادی میں گلگشتِ چمن تھا۔

جنت کے نظارے کا کیا بیان کیا جائے۔ ایسے ایسے محلات کہ جن کے اندر فن تعمیر ایسا کہ دنیا کی کوئی تاریخ مثال پیش نہیں کر سکتی۔ ہیرے جواہرات سے مرصع اس محل میں ان صاحب کو محو استراحت دیکھا۔ جن کی خدمت کے لئے حوریں مامور تھیں۔ قسم قسم کے طیور اور پرندے چمک رہے تھے۔ لگتا تھا کہ ان صاحب کی تعریف و توصیف کے ترانے گا رہے ہیں۔ ایسے تراشے ہوئے پتھروں سے حوضیں دیکھیں جن پتھروں کی چمک دمک کے سامنے سچے موتیوں کی چمک دمک ماند ہے۔

جنت میں ایک اعلیٰ مقام ہے۔ یہ مقام ان قدسی نفس حضرات کا مقام ہے جو خلوص نیت سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے دل میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کا جذبہ کارفرما ہے۔ جن کے دل حق آشنا ہیں اور جو آدم و حوا کے رشتے سے اپنی بہن بھائیوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق اس دکھ درد سے نجات حاصل کرے۔ اس پرسکون عالم  کو دیکھ کر میرے اوپر سکوت طاری ہو گیا۔ عقل گم ہو گئی، سماعت ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دنیا کو دیکھنے والی بصارت ایک فریب اور دھوکا نظر آئی اور پھر بے اختیار آنکھیں آبشار بن گئیں۔ یہ آنسو غم اور خوف کے آنسو نہیں تھے، تشکر کے آنسو تھے۔ میری اس والہانہ خوشی سے دونوں فرشتے بھی خوش ہوئے۔ اور پوچھا جانتے ہو یہ کن لوگوں کا مقام ہے؟

یہ ان لوگوں کا مقام ہے جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کے بتائے ہوئے راستے پر خلوص نیت سے عمل کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست کہا ہے۔ بے شک اللہ کے دوستوں کے لئے خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا ہوتے ہیں۔

یہ دونوں فرشتے کراماً کاتبین تھے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔