Topics

سیر

انسان کی روح میں ایک روشنی ایسی ہے جو اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر اس لامتناہی روشنی کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو اس لامحدود روشنی میں مقید تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنی موجودات کی ہر چیز کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے احاطے سے باہر کسی وہم، خیال یا تصور کا نکل جانا ممکن نہیں۔ روشنی کے اس دائرے میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا بحالت موجودہ وقوع میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب ذات انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔

اس روشنی کی ایک شعاع کا نام باصرہ (دیکھنے کی قوت) ہے۔ یہ شعاع کائنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ تمام کائنات ایک دائرہ ہے اور یہ روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ کی لو کا نام باصرہ ہے۔ جہاں اس چراغ کی لو کا عکس پڑتا ہے وہاں ارد گرد اور قرب و جوار کو چراغ کو دیکھ لیتی ہے۔ اس چراغ کی لو میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی ہے۔ کہیں لو کی روشنی بہت ہلکی، کہیں ہلکی، کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تواہم پیدا ہوتا ہے۔ تواہم لطیف ترین خیال کو کہتے ہیں۔ جو صرف ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی ہلکی پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا خیال رونما ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان چیزوں کا تصور قدرے نمایاں ہو جاتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے ۔ ان چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر ان کو دیکھ لیتی ہے۔

وہم، خیال اور تصور کی صورت میں کوئی چیز انسانی نگاہ پر واضح نہیں ہوتی اور نگاہ اس چیز کی تفصیل کو نہیں سمجھ سکتی۔ اگر کسی طرح نگاہ کا دائرہ بڑھتا جائے تو وہ چیزیں نظر آنے لگتی ہیں جن سے نگاہ وہم، خیال اور تصور کی صورت میں روشناس ہے۔

شہود کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی ہو یا تیز ہو، نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ شہود ایسی صلاحیت ہے جو ہلکی سے ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کر دیتی ہے تا کہ ان چیزوں کو جو اب تک محض تواہم تھیں، خدوخال، شکل وصورت، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے۔ روح کی وہ طاقت جس کا نام شہود ہے ، وہم کو، خیال کو یا تصور کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان کی جزئیات کو نگاہ پر منکشف کر دیتی ہے۔ شہود میں روح کا برقی نظام بے حد تیز ہو جاتا ہے اور حواس میں روشنی کا ذخیرہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس روشنی میں غیب کے نقوش نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ مرحلہ شہود کا پہلا قدم ہے۔ 

اس مرحلے میں سارے اعمال باصرہ یا نگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی صاحب شہود غیب کے معاملات کو خدوخال میں دیکھتا ہے۔

قوت بصارت کے بعد شہود کا دوسرا مرحلہ سماعت کا حرکت میں آنا ہے اس مرحلہ میں کسی ذی روح کے اندر کے خیالات آواز کی صورت میں صاحب شہود کی سماعت تک پہنچنے لگتے ہیں۔

شہود کا تیسرا اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ صاحب شہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کے برابر ہو، سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔

ایک صحابیؓ نے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں اپنی طویل شب بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام! میں فرشتوں کو آسمان میں چلتے پھرتے دیکھتا تھا۔‘‘

آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔

’’اگر تم شب بیداری کو قائم رکھتے تو فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔‘‘

دور ِرسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس واقعہ میں شہود کے مدارج کا تذکرہ موجود ہے۔ فرشتوں کا مشاہدہ باصرہ سے تعلق رکھتا ہے اور مصافحہ کرنا، لمس کی قوتوں کی طرف اشارہ ہے جو باصرہ کے بعد بیدار ہو تی ہیں۔

شہود کے مدارج میں ایک کیفیت وہ ہے کہ جب جسم اور روح کی واردات و کیفیات ایک ہی نقطہ میں سمٹ آتی ہیں اور جسم روح کا حکم قبول کر لیتا ہے۔ اولیاء اللہ کے حالات میں اس طرح کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ مثلاً ایک قریبی شناسا نے حضرت معروف کرخیؒ کے جسم پر ایک نشان دیکھ کر پوچھا کہ کل تک تو یہ نشان موجود نہیں تھا آج کیسے پڑ گیا؟ حضرت معروف کرخیؒ نے فرمایا۔’’کہ کہ کل رات میں حالت نماز میں تھا کہ ذہن خانہ کعبہ کی طرف چلا گیا، میں خانہ کعبہ پہنچ گیا اور طواف کے بعد جب چاہ زم زم کے قریب پہنچا تو میرا پیر پھسل گیا اور میں گر پڑا، مجھے چوٹ لگی اور یہ اسی کا نشان ہے۔‘‘

اسی طرح ایک بار اپنے مرشد کریم ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے جسم پر زخم کا غیر معمولی نشان دیکھ کر مصنف نے اس کی بابت دریافت کیا۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے بتایا۔ ’’رات کو روحانی پرواز کے دوران دو چٹانوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جسم ایک چٹان سے ٹکرا گیا جس کی وجہ سے یہ زخم آ گیا۔‘‘

جب شہود کی کیفیات میں استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو روحانی طالب علم غیبی دنیا کی سیر اس طرح کرتا ہے کہ وہ غیب کی دنیا کی حدود میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو اس کے نورانی مشاغل کہلا سکتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مراقبہ کی مشق کے ساتھ ساتھ آدمی کے ذہن میں دنیا کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ یہاں وہ مکان کی قید و بند سے آزاد ہوتا ہے ۔ اس کے قدم زمان کی ابتداء سے زمان کی انتہا تک ارادے کے مطابق اٹھتے ہیں۔ جب انسان کا نقطہ ذات مراقبہ کے مشاغل میں پوری معلومات حاصل کرلیتا ہے تو اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ زمان کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکتا ہے اور ارادے کے تحت اپنی قوتوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سال بعد کے واقعات دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ پہلے سے موجود تھا، یا آئندہ ہو گا، اس وقت بھی موجود ہے۔ شہود کی اس کیفیت کو عارفوں کی اصطلاح میں سیر یا معائنہ بھی کہتے ہیں۔

ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ ’’لوح و قلم‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’جب عارف کی سیر شروع ہوتی ہے تو وہ کائنات میں خارجی سمتوں سے داخل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نقطہ ذات سے داخل ہوتا ہے۔ اسی نقطہ سے وحدت الوجود کی ابتداء ہوتی ہے۔ جب عارف اپنی نگاہ کو اس نقطہ میں جذب کر دیتا ہے تو ایک روشنی کا دروازہ کھل جاتا ہے وہ اس روشنی کے دروازے سے ایسی شاہراہ میں پہنچ جاتا ہے جس سے لاشمار راہیں کائنات کی تمام سمتوں میں کھل جاتی ہیں۔ اب وہ قدم قدم تمام نظام ہائے شمسی اورتمام نظام ہائے فلکی سے روشناس ہوتا ہے۔ لاشمار ستاروں اور سیاروں میں قیام کرتا ہے اسے ہر طرح کی مخلوق کو مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہر نقش کے ظاہر و باطن سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ وہ رفتہ رفتہ کائنات کی اصلیتوں اور حقیقتوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس پر تخلیق کے راز کھل جاتے ہیں۔ اور اس کے ذہن پر قدرت کے قوانین منکشف ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اپنے نفس کو سمجھتا ہے، پھر روحانیت کی طرزیں اس کی فہم میں سما جاتی ہیں۔ اسے تجلی ذات اور صفات کا ادراک حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جان لیتا ہے کہ اللہ نے جب کن ارشاد فرمایا تو کس طرح یہ کائنات ظہور میں آئی اور ظہورات کس طرح وسعت اور وسعت مرحلوں اور منزلوں میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ خود کو بھی ان ہی ظہورات کے قافلے کا ایک مسافر دیکھتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذکورہ سیر کی راہیں خارج میں نہیں کھلتیں۔ دل کے مرکز میں جو روشنی ہے اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اس کے نشانات ملتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ دنیا خیالات اور تصورات کی بے حقیقت دنیا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اس دنیا میں وہ تمام اصلیں اور حقیقتیں متشکل اور مجسم طور سے پائی جاتی ہیں جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔‘‘

قلندر بابا اولیاءؒ شہود کے مکاشفات پر مزید روشنی ڈالتے ہوے فرماتے ہیں:

’’روحانی طالب علم فرشتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ ان باتوں سے آگاہ ہوتا ہے جو اس کی اپنی حقیقت میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان صلاحیتوں کو پہچانتا ہے جو اس کے اپنے احاطہء اختیار میں ہیں۔ عالم امر(روحانی دنیا) کے حقائق اس پر منکشف ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں اور روشنیوں کو سنبھالنے کے لئے کیا کیا انوار استعمال ہوتے ہیں۔ پھر اس کے ادراک پر وہ تجلی بھی منکشف ہو جاتی ہے جو روشنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے۔‘‘



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔