Topics

مراقبہ، اللہ کے نام

جب ہم کسی چیز کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کی صفات بیان کرتے ہیں۔ صفات کا تذکرہ کئے بغیر کسی وجود کی تشریح ممکن نہیں ہے۔ مخصوص صفات کے مجموعے کا نام شئے قرار پاتا ہے۔ جب ہم مادی خدوخال کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں چیز ٹھوس ہے، مائع ہے، گیس ہے، اس میں فلاں رنگ غالب ہے، فلاں فلاں کیمیاوی اجزاء کام کرتے ہیں، چیز گول ہے، چوکور ہے یا کوئی اور خاص شکل رکھتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

ہر شئے کا کوئی نہ کوئی نام رکھا جاتا ہے اور نام ایک علامت ہے جو مخصوص صفات کی ترجمانی کرتا ہے۔ مثلاً جب ہم لفظ پانی کہتے ہیں تو اس سے مراد وہ سیال شئے ہے جو پیاس بجھانے کے کام آتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم پانی کی کتنی صفات سے واقف ہیں۔

جب ہم پانی کہتے ہیں تو سننے والے کے ذہن میں پانی کی صفات یا پانی کے معانی آتے ہیں۔ اسی طرح لکھنے والی چیز کو قلم کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص قلم کہتا ہے تو اس سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو لکھنے کے کام آتی ہے۔

مفہوم یہ ہے کہ صفات کے مجموعے کو کسی علامت سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ علامت ایک اشارہ ہوتی ہے۔ علامت کو اسم بھی کہہ سکتے ہیں۔ روحانی علوم کے مطابق کائنات صفات کا مجموعہ ہے۔ صفات کی باہمی ترکیب سے تخلیق عمل میں آتی ہے۔ روحانی سائنس دانوں نے تخلیق کی گہرائی میں صفات کا مشاہدہ کیا ہے اور ان کو مختلف نام دیئے ہیں۔

انبیاء کو وحی کی روشنی میں صفات کا علم حاصل ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ کائنات میں کام کرنے والی صفات اللہ کی صفات ہیں۔ فرق یہ ہے کہ صفات اللہ کی ذات میں کل کی حیثیت میں موجود ہیں اور مخلوق کو ان کا جزو عطا ہوا ہے۔ مثلاً اللہ بصیر ہیں یعنی دیکھنے کی صفت اللہ کی صفت ہے اور مخلوق میں بھی دیکھنے کی قوت کام کرتی ہے۔ اللہ سماعت کی صفت ہے اور مخلوق میں بھی سماعت عمل کرتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے والا ہوں۔ یا اللہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ گویا اللہ میں کوئی صفت درجہ کمال میں موجود اور لامحدود ہے لیکن مخلوق میں یہ محدود ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔