Topics

خیالات کی لہریں

انسانی ذہن میں اطلاعات کی لہریں خیالات بنتی رہتی ہیں۔ ٹھہرے ہوئے پانی کی سطح پر پتھر پھینکا جائے تو رد عمل میں دائرہ نما لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح اطلاعات کے رد عمل میں خیالات کی لہریں تخلیق ہوتی ہیں۔ ذہن کی سطح جھیل کی مانند ہے جس میں لہریں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ جب کوئی شخص جھیل کی ساکت سطح کو دیکھتا ہے تو اسے پانی کے اندر کا منظر نظر آ جاتا ہے۔ لیکن پانی کی سطح پر لہریں پیدا ہو رہی ہوں تو عکس نظر نہیں آتا۔ تصویر لہروں کی وجہ سے گڈ مڈ ہو جاتی ہے۔

اگر ہم اپنے شب و روز کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ صبح بیدار ہوتے ہی ہمارے ذہن میں دفتر یا دکان کا خیال وارد ہوتا ہے اور اس خیال کے زیر اثر ہم تیار ہو کر دفتر یا دکان کی طرف چل پڑتے ہیں۔ راستے میں سینکڑوں مناظر نگاہ کے سامنے سے گزرتے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں کانوں میں پڑتی ہیں۔ کچھ مناظر ایسے ہوتے ہیں جو توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ کوئی حادثہ نظر آ جائے تو وہ ذہن پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ کسی نئے سائن بورڈ پر نظر پڑتی ہے تو اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دفتر یا دکان پہنچ کر کاروباری امور محل توجہ بن جاتے ہیں۔

گھر واپس پہنچنے کے بعد گھریلو معاملات ذہن میں جگہ کر لیتے ہیں۔ گھر کے ضروری کام نمٹ جاتے ہیں تو طبیعت سیر و تفریح کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ کسی عزیز یا دوست کے پاس چلے جاتے ہیں۔ کوئی رسالہ یا کتاب پڑھنے لگتے ہیں یا ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ رات ہو جاتی ہے اور سو جاتے ہیں۔ اگلا دن کم و بیش اسی طرح کی مصروفیات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔

اگر کسی بھی وقفے کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دوران ہماری توجہ چند لمحوں سے زیادہ کسی ایک بات پر نہیں ٹھہرتی۔ خیالات کے ساتھ ساتھ توجہ کا مرکز بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پریشانی کا خیال آتا ہے تو اس کے متعلق سوچنے لگتے ہیں۔ خوشی کا خیال آتے ہی ذہن خوشی کے جذبات میں سفر کرنے لگتا ہے۔ کسی واقعے کا خیال آتا ہے تو ذہن اس کی جزئیات پر غور کرنے لگتا ہے۔

تمام ذہنی مصروفیات کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ذہن ہمہ وقت ماحول کے معاملات میں منہمک رہتا ہے اور بیداری کا وقفہ اسی طرح کی ذہنی گہما گہمی میں گزر جاتا ہے۔ گرد و پیش کے معاملات یکے بعد دیگرے یورش کرتے رہتے ہیں اور کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا جب ہماری توجہ خیالات کی لہروں سے ہٹ جائے۔ خیالات کا یہ ہجوم آدمی کے لئے پردے کا کام کرتا ہے کیونکہ تلاطم کی وجہ سے شعور باطنی زندگی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اندرونی عکس نظرنہیں آتے۔

ذہن کی سطح پر جو عکس پڑتے ہیں وہ تاثر کے اعتبار سے گہرے اور ہلکے ہوتے ہیں۔ گہرے عکس کو شعور دیکھ لیتا ہے لیکن جو عکس مدہم ہوتے ہیں شعور ان کا تفصیلی احاطہ نہیں کر سکتا۔ بہت مدہم عکس ناقابل توجہ ہو کر فراموش ہو جاتے ہیں۔ جب تک ذہنی مرکزیت خیالات کی لہروں میں رہتی ہے، ذہن کے اندر جھانکنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن جب توجہ سطح پر پیدا ہونے والے خیالات سے ہٹ جاتی ہے تو نظر باطنی زندگی میں کام کرنے لگتی ہے اور وہ عکس نظر آنے لگتے ہیں جو مدھم ہو تے ہیں اور جو عام طور پر نظر نہیں آتے۔ 

اس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ ماورائی علوم اور ماورائی صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے لئے ذہنی یکسوئی لازمی ہے۔ روحانی علوم کی تعلیم و تحصیل کے لئے جس کیفیت یا جس صلاحیت کو سب سے پہلے بیدار کیا جاتا ہے اسے عام الفاظ میں خالی الذہن ہونا کہتے ہیں۔ خالی الذہن ہونا روحانی علوم کا پہلا سبق ہے۔ اس صلاحیت کے ذریعے طالب علم دنیاوی خیالات سے آزاد ہو کر روحانی عالم کا مشاہدہ کرتا ہے۔

خالی الذہن ہونے کا مطلب نہیں ہے کہ ذہن میں کوئی خیال نہ آئے۔خالی الذہن ہونے سے مراد توجہ کو کسی ایک نقطے پر اس طرح قائم رکھنا ہے کہ آدمی اپنے ارادے سے کوئی دوسرا خیال ذہن میں نہ لائے۔ انخلائے ذہن کی دوسری تعریف یہ ہے کہ ذہن کو تمام خیالات سے ہٹا کر ایک خیال پر اس طرح متوجہ رکھا جائے کہ دوسرے تمام خیالات ناقابل توجہ ہو جائیں۔ جب ہم خالی الذہن ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں خالی الذہن ہونے کی عادت نہیں ہے۔ لیکن مسلسل مشق کے ذریعے یہ صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔ خالی الذہن ہونے کا اصطلاحی نام مراقبہ ہے۔ خالی الذہن کی کیفیت روزمرہ کئی کاموں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔

مثال:

ہم کوئی مضمون لکھنے بیٹھتے ہیں۔ کاغذ سامنے ہوتا ہے، قلم ہاتھ میں اور ذہن الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ ماحول میں بہت سی ایسی باتیں اور آوازیں ہوتی ہیں جو عام حالات میں ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ لیکن اس وقت ہم اپنا دھیان مضمون کی طرف سے نہیں ہٹاتے اور ہماری فکر اور عمل ایک ہی نقطہ کے گرد گھومتے ہیں۔ اضافی توجہ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ سوئی میں دھاگہ ڈالتے ہوئے توجہ سوئی کے ناکے اور دھاگے پر مرکوز کی جاتی ہے اور اس وقت تک قائم رکھی جاتی ہے جب تک دھاگہ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہو جاتا۔ 

یہی معاملہ ڈرائیونگ کے وقت ہوتا ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے ہم اپنی تمام تر دماغی قوتوں کا رخ ٹریفک اور گاڑی کی نقل و حرکت کی طرف موڑ دیتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں اعضائے جسمانی گاڑی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ڈرائیونگ کے دوران ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ توجہ راستے پر رہے۔ اگرچہ ہم برابر بیٹھے ہوئے شخص سے باتیں بھی کر لیتے ہیں اور دیگر کئی باتیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں لیکن ارادی توجہ ڈرائیونگ کے عمل سے نہیں ہٹتی۔

کم و بیش یہی حالت اور یہی کیفیت مراقبہ کرنے والا خود پر ارادی اور اختیاری طور پر طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دس پندرہ منٹ یا گھنٹہ دو گھنٹے اپنی توجہ اپنا دھیان ایک تصور یا ایک خیال پر قائم رکھتا ہے۔ دوسرے تمام معاملات سے اپنا ذہنی رشتہ توڑ لیتا ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ مراقبہ دراصل ایک خیال میں بے خیال ہو جانے کا نام ہے۔

مراقبہ کی مشق میں یا مراقبہ کی حالت میں وہ تمام ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں جن سے ذہن خارجی تحریکات سے منقطع ہو کر ایک نقطے میں جذب ہو جائے۔ جب ماحول کی اطلاعات کا سلسلہ رک جاتا ہے تو خفی تحریکات ظاہر ہونے لگتی ہیں اس طرح آدمی ان صلاحیتوں اور قوتوں کے ذریعے دیکھتا، سنتا، چھوتا، چلتا، پھرتا اور سارے کام کرتا ہے جو روحانی صلاحیتیں کہلاتی ہیں۔ مولانا روم نے اسی بات کو اس طرح بیان کیا ہے۔

چشم بند وگوش بندولب بہ بند

گرنہ بینی سرحق برمن بہ خند



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔