Topics
عدم کا مراقبہ، لا کے مراقبے کی ایک شکل ہے۔ اس مراقبے میں طالب علم آنکھیں بند کر کے ایسی کیفیت کا تصور کرتا ہے جو نفی کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کا انہماک ایسے عالم میں ہوتا ہے جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ انسان ہیں، نہ جنات ہیں، نہ شجر و حجر ہیں، نہ کوئی آواز ہے۔ حتیٰ کہ وہ زماں و مکاں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی لاموجود تصور کرتا ہے۔
ابتدائی درجے میں یہ تصور کرنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ عام حالات میں کوئی شخص ایسی کیفیت سے دوچار نہیں ہوتا جس میں مکمل نفی موجود ہو۔ اس بات کے پیش نظر عدم کا مراقبہ مرحلہ وار کرایا جاتا ہے۔ یعنی ایسی مراقبہ جات کرائے جاتے ہیں جن میں مکمل نفی کے بجائے نفی کا عکس پایا جاتا ہے۔ مثلاً:
1۔ طالب علم صحرا یا بیابان کا تصور کرتا ہے۔ جہاں مکمل خاموشی کا راج ہے اور ہر چیز بے حرکت ہے۔ یعنی چاروں طرف ہُو کا
عالم طاری ہے۔ اس مراقبے کا دوسرانام مراقبہ بری ہے۔
2۔ ایک وسیع و عریض سمندر ہے جس کا پانی بالکل ساکت ہے اور صاحب مراقبہ اس سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کو مراقبہ بحر
کہتے ہیں۔
3۔ طالب یہ تصور کرتا ہے کہ میں موجود نہیں ہوں، صرف ذات حق موجود ہے۔
اس طرح کے تصورات قائم کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ جب یہ مراحل عبور ہو جاتے ہیں تو مراقبہ عدم کا اصل تصور تلقین کیا جاتا ہے۔
مراقبہ عدم کے ذریعے طالب علم پر وہ کیفیات طاری ہونے لگتی ہیں جو شعوری واردات کے برعکس ہیں۔ جب شعوری واردات کی نفی ہو جاتی ہے تو لاشعوری کیفیات میں سفر شروع ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ عدم سے مراد ایسی دنیا نہیں ہے جس میں کسی چیز کا وجود نہیں بلکہ عدم سے مراد وہ دنیا ہے جس میں لاشعور کے ذریعے سفر ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔