Topics
موجودہ علمی دور میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آدمی کیا ہے اور اس کی صلاحیتوں کی حد کہاں تک ہے؟ تخلیقی فارمولوں کا علم بتاتا ہے کہ آدم زاد کے ہزاروں روپ ہیں، بظاہر وہ خاک کا پتلا ہے ، میکانیکی حرکات پر مبنی گوشت پوست، خون اور ہڈیوں کا ایک پیکر ہے۔ اس کے اندر ایک پوری کیمیائی دنیا آباد ہے۔ اطلاعات و پیغامات پر آدمی کی زندگی رواں دواں ہے۔ آدمی خیال و تصور کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کی ہر حرکت خیال اور تصور کے تابع ہے۔ دنیائے انسانیت کے تمام کارنامے خیال اور تصور اور تخیل کی غیر مرئی طاقت کے گرد گھوم رہے ہیں۔ آدم زاد خیال کے اندر مختلف معانی پہنا کر نئی نئی جلوہ سامانیاں ظہور میں لے آتا ہے۔
آدمی کے شعور نے ایک بچہ کی طرح نشوونما پائی ہے۔ جب بچہ اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے تو دنیاوی اعتبار سے اس کی شعوری استطاعت ناقابل ذکر ہوتی ہے۔ پھر وہ صغر سنی اور طفولیت کا زمانہ گزار کر لڑکپن میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی دماغی صلاحیت پہلے کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ طبعی اعتبار سے جب وہ جوان ہوتا ہے تو اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں۔ اسی طرح نوع آدم کا شعور بھی آہستہ آہستہ ترقی کر کے موجودہ دنیا تک پہنچا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہو چکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دور علم و فن اور تسخیر کائنات کے شباب کا دور ہے۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ تخلیق و تسخیر کا ایک عظیم الشان ذخیرہ ابھی مخفی ہے۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصہَ شہود پر آ چکا ہے۔ لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اور صفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے مظہر جلی میں آنے کے لئے بے قرار ہیں۔
تمام تجربات، مشاہدات اور محسوسات کا ماخذ ذہن ہے۔ جتنی ایجادات انسان سے صادر ہوتی ہیں ان کو بھی ذہن کی کارفرمائی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب انسان غور و فکر کرتا ہے تو ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور کسی کلیے یا کسی نئے علم کا انکشاف ہو جاتا ہے۔
انسانی ذہن ہزاروں سال پہلے بھی ایک معمہ تھا اور آج کے سائنسی دور میں بھی ایک معمہ ہے۔ آج ہمارے پاس پہلے سے کہیں زیادہ علمی اور تجرباتی ذرائع موجود ہیں جن کی مدد سے نئی نئی وضاحتیں دانشوروں کے سامنے آ رہی ہیں۔
ایک پرت کی ادھیڑ بن کی جاتی ہے تو دوسرا پرت سامنے آ جاتا ہے۔ دوسرے پرت کو اچھی طرح نہیں دیکھ پاتے کہ ایک نیا روزن کھل جاتا ہے۔ سائنس دانوں اور علم انفس کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ انسان ابھی تک اپنی صلاحیتوں کا پانچ سے دس فیصد بھی استعمال کرنے پر قادر نہیں ہو سکا۔ باقی قوتیں اس کے اندر خوابیدہ ہیں۔ گویا نوع انسان نے اب تک جو ترقی کی ہے وہ صرف پانچ سے دس فیصد صلاحیتوں کے استعمال کا ثمرہ ہے۔
ان معروضات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ دور کی علمی کامیابیاں جن میں علم طب، علم حیوانات و نباتات، جینیات، طبیعات، کیمیا، برقیات، تعمیرات، سائیکلوجی، پیراسائیکلوجی اور دیگر علوم و فنون شامل ہیں، یہ سب انسانی صلاحیتوں کے عکس ہیں۔ لیکن جب ہم ان علمی و فنی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ہمارے ذہن میں بہت کم آتی ہے کہ یہ ہماری ذہنی قوتوں کے مظاہر ہیں جو قدرت نے ہمارے اندر محفوظ کر رکھی ہیں۔
نفس و دماغ سے متعلق روز افزوں انکشافات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ انسان کا وجود دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ اس کی خارجی دنیا ہے اور دوسرا حصہ اس کے داخل میں واقع ہونے والی تحریکات ہیں۔ انسانی نفس کے یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ ہر دور میں یہ بات کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتی رہی ہے کہ انسان صرف جسمانی حرکات اور خارجی کیفیات کا نام نہیں ہے۔ انسان کے اندر ایک دائرہ مادی تحریکات سے آزاد ہے اور اسی دائرے سے تمام خیالات و افکار مادی دائرے کو ملتے ہیں۔ یہ دائرہ اصل انسان ہے اور اسے عرف عام میں ’’روح‘‘ کہا گیا ہے۔ اہل روحانیت نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر آدمی اپنے قلب، اپنے من کے اندر سفر کرے تو اس کے اوپر روح کی قوتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔
تمام آسمانی صحائف نے انسان کی غیر معمولی صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ کتب سماوی کے مطابق انسان بظاہر گوشت پوست سے مرکب ہے۔ لیکن اس کے اندر ایسی انرجی، یا ایسا جوہر کام کر رہا ہے جو خالق کی صفات کا عکس ہے۔ اس جوہر کو روح کا نام دیا گیا ہے اور اسی روح کے ذریعے انسان کو کائناتی علوم حاصل ہیں۔
آسمانی کتابوں نے انسان کی تمام حسیات اور واردات کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور انہیں آفاق و انفس کہا ہے۔ آفاق ان مادی مظاہرات کا نام ہے جو خارج میں نظر آتے ہیں جب کہ انفس ان خدوخال کا مجموعہ ہے جو کائنات کی داخلی زندگی ہے۔ انفس کے بارے میں انسانی علم ابھی تکمیل و ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ چند سو سال پہلے علوم طبعی کے انکشافات و تجربات سحر و طلسم کی حیثیت رکھتے تھے اور ان پر بے یقینی اور پراسراریت کے پردے پڑے ہوئے تھے لیکن آج ہم ان علومسے حقیقت ثابتہ کی طرح روشناس ہیں۔ فی زمانہ یہی حال روح یا انفس کے علوم و حقائق کا ہے۔
انسان کے اندر پانچ حواس بصارت، سماعت، گفتار، شامہ اور لمس کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر حس کی ایک تعریف اور ایک دائرہ عمل ہے۔ کوئی حس ایک حد سے باہر عمل نہیں کر سکتی۔ مثلاً ہم آنکھوں سے چند میل زیادہ دور نہیں دیکھ سکتے، کانوں سے ایک خاص طول موج سے کم یا زیادہ کی آوازیں نہیں سن سکتے۔ کسی چیز کے قریب جائے بغیر اسے چھو نہیں سکتے۔
انسان کے یہ پانچوں حواس مادی رخ میں محدود ہیں لیکن روحانی دائرے میں لامحدود ہیں۔ حوا س کا روحانی دائرہ عام طور پر مخفی رہتا ہے۔ اس دائرہ میں بصارت، فاصلے کی پابندی سے آزاد ہو جاتی ہے۔ کان ہر طول موج کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ قوت بیان الفاظ کی محتاج نہیں رہتی۔ انسان گفتگو کئے بغیر کسی کے خیالات جان سکتا ہے اور اپنے خیالات اس تک پہنچا سکتا ہے۔
انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتا ہے جب روحانی حواس متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہ حواس ادراک و مشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طور سے بند رہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اور کہکشانی نظاموں میں داخل ہوتا ہے۔ غیبی مخلوقات اور فرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔
روحانی حواس کو بیدار کرنے کا موثر طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ ایک مشق ہے، ایک طرز فکر ہے اور ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جو خوابیدہ حواس کو بیدار اور متحرک کر دیتی ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ان قوتوں کو تسخیر کیا جاتا ہے جو مادی حواس سے ماوراء ہیں۔ مراقبہ سے ماورائی صلاحیتیں روشن ہو جاتی ہیں مراقبہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے۔
روحانی، نفسیاتی اور طبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں۔ مراقبہ ذہنی انتشار کو ختم کر کے یکسوئی بخشتا ہے۔ نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ امراض کو قریب آنے سے روکتا ہے۔ مراقبہ سے انسان کو سکون اور اطمینان قلب کی دولت مل جاتی ہے۔ منفی رجحانات اور جذبات پر کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔ انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ زندگی کے معاملات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔
تمام مذاہب کی عبادات میں مراقبہ کا عنصر موجود ہے۔ ایسی عبادت پر زور دیا گیا ہے جس میں یکسوئی، گہرائی اور ارتکاز توجہ ہو۔ مراقبہ کے بارے میں جو کچھ اجمالاً عرض کیا گیا ہے آنے والے صفحات میں ہم اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے اور یہ بتائیں گے کہ مراقبہ کیا ہے۔ اور مراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدار کر سکتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔