Topics

کشف القبور

مرنے کے بعدآدمی کی مادی دنیا، ملکوتی دنیا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ زندگی ایک نئے Dimensionمیں جاری رہتی ہے اور انا دوسری دنیا میں زندگی کے شب و روز پورے کرتی ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی کو اعراف کی زندگی کہتے ہیں، اس زندگی کا دارومدار دنیا کے اعمال پر ہے۔ اگر انتقال کے وقت کوئی شخص سکون سے لبریز اور ذہنی پراگندگی اور کثافت سے آزاد ہے تو اعراف کی کیفیات میں بھی سکون اور اطمینان قلبی کا غلبہ ہو گا لیکن اگر کوئی شخص اس دنیا سے بے سکونی، ضمیر کی خلش اور ذہنی گھٹن لے کر اعراف میں منتقل ہوتا ہے تو وہاں بھی یہی کیفیات اس کا استقبال کرتی ہیں۔

کشف القبور کا مراقبہ اس شخص کی قبر پر کیا جاتا ہے جس سے اعراف میں ملاقات کرنا مقصود ہو۔ مراقبہ کشف القبور کے ذریعے مرحوم یا مرحومہ سے نہ صرف ملاقات ہو سکتی ہے بلکہ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس حال میں ہے۔

جب کشف القبور کا مراقبہ کسی بزرگ یا ولی اللہ کے مزار پر کیا جاتا ہے تو اس سے مقصد بزرگ کی زیارت اور روحانی فیض کا حصول ہوتا ہے۔مراقبہ کشف القبور کا طریقہ یہ ہے:

* قبر کی پائنتی کی طرف بیٹھ جائیں۔

* ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں اور جب سینہ بھر جائے تو روکے بغیر آہستگی سے باہر نکال دیں۔ یہ عمل 

گیارہ مرتبہ کریں۔

* اس کے بعد آنکھیں بند کر کے تصور کو قبر کے اندر مرکوز کر دیں۔

* کچھ دیر بعد ذہن کو قبر کے اندر گہرائی کی طرف لے جائیں گویا قبر ایک گہرائی ہے اور آپ کی توجہ اس میں اترتی جا رہی 

ہے۔ اس تصور کو مسلسل قائم رکھیں۔

 باطنی نگاہ متحرک ہو جائے گی اور مرحوم شخص کی روح سامنے آ جائے گی۔ ذہنی سکت اور قوت کی مناسبت سے مسلسل مشق 

اور کوشش کے بعد کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

کشف القبور کی صلاحیت کو زیادہ تر اولیاء اللہ کے مزارات پر ان کی زیارت اور فیض کے حصول کے لئے استعمال کریں۔ جاوبے جا اس صلاحیت کو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔

قبر شریف کے پیروں کی جانب مراقبہ کیا تو دیکھا کہ میرے اندر سے روح کا ایک پرت نکلا اور قبر کے اندر اتر گیا۔ دیکھا کہ حضورلعل شہبازقلندرؒ تشریف فرما ہیں۔ قبر بڑے وسیع و عریض کمرے کی مانند ہے۔ قبر کے بائیں طرف دیوار میں ایک کھڑکی یا چھوٹا دروازہ ہے۔ قلندر لعل شہبازؒ نے فرمایا۔ ’’جاؤ! یہ دروازہ کھول کر اندر کی سیر کرو تم بالکل آزاد ہو۔‘‘

دروازہ کھول کر دیکھا تو ایک باغ نظر آیا۔ اتنا خوبصورت اور دیدہ زیب باغ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی اس میں کیا کچھ نہیں ہے۔ سب ہی کچھ تو موجود ہے۔ ایسے پرندے دیکھے جن کے پروں سے روشنی نکل رہی ہے۔ ایسے پھول دیکھے جن کا تصور نوع انسان کے شعور سے ماوراء ہے۔ پھولوں میں ایک خاص اور عجیب بات نظر آئی کہ ایک ایک پھول میں کئی کئی سو رنگوں کا امتزاج اور یہ رنگ محض رنگ نہیں بلکہ ہر رنگ روشنی کا ایک قمقمہ بنا ہوا ہے۔ جب ہوا چلتی ہے تو یہ رنگ آمیز روشنیوں سے مرکب پھول ایسا سماں پیدا کرتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں روشنیوں کے رنگ برنگ قمقمے درختوں اور پودوں کے جھولوں پر جیسے جھول رہے ہوں۔ درختوں میں ایک خاص بات نظر آئی کہ ہر درخت کا تنا اور شاخیں، پتے، پھل اور پھول بالکل ایک دائرے میں تخلیق کئے گئے ہیں۔ جس طرح برسات میں سانپ کی چھتری زمین میں سے اگتی ہے۔ اسی طرح گول اور بالکل سیدھے تنے کے ساتھ یہاں کے درخت ہیں۔ ہوا جب درختوں اور پتوں سے ٹکراتی ہے تو ساز بجنے لگتے ہیں ان سازوں میں اتنا کیف ہوتا ہے کہ آدمی کا دل وجدان سے معمور ہو جاتا ہے۔ اس باغ میں انگور کی بیلیں بھی ہیں۔ انگوروں کا رنگ گہرا گلابی یا گہرا نیلا ہے۔ بڑے بڑے خوشوں میں ایک ایک انگور اس فانی دنیا کے بڑے سیب کے برابر ہے۔ اس باغ میں آبشار اور صاف شفاف دودھ جیسے پانی کے چشمے بھی ہیں۔

بڑے بڑے حوضوں میں سینکڑوں قسم کے کنول کے پھول گردن اٹھائے کسی کی آمد کے منتظر نظر آتے ہیں۔ باغ میں ایسا سماں ہے جیسے صبح صادق کے وقت ہوتا ہے یا بارش تھمنے کے بعد، سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے ہوتا ہے۔ اس باغ میں پرندے، طیور تو ہزاروں قسم کے ہیں مگر چوپائے کہیں نظر نہیں آئے۔

بہت خوبصورت درخت پر بیٹھے ہوئے ایک طوطے سے میں نے پوچھا کہ یہ باغ کہاں واقع ہے اس طوطے نے انسانوں کی بولی میں جواب دیا۔’’یہ جنت الخلد ہے۔ یہ اللہ کے دوست لعل شہباز قلندرؒ کا باغ ہے۔‘‘ اور حمد و ثنا کے ترانے گاتا ہوا اڑ گیا۔ المختصر میں نے جو کچھ دیکھا زبان الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ انگوروں کا ایک خوشہ توڑ کر واپس اسی جنت کی کھڑکی سے حضور لعل شہبازؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ حضور نے فرمایا۔’’ہمارا باغ دیکھا، پسند آیا تمہیں؟‘‘۔

میں نے عرض کیا۔ ’’حضور! ایسا باغ نہ تو کسی نے دیکھا اور نہ سنا ہے۔ میں تو اس کی تعریف کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔‘‘

شاہ عبدالعزیز دہلویؒ :

برصغیر پاک و ہند کے ایک معروف صاحب کمال بزرگ حضرت غوث علی شاہ قلندرؒ پانی پتی نے تذکرہ غوثیہ میں مندرجہ ذیل واقعہ بیان کیا ہے جو موت کے بعد کی زندگی، اعراف کے بارے میں نہایت حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ واقعہ ان دنوں پیش آیا جب حضرت غوث علی شاہؒ اپنے وقت کے ایک باکمال اور صاحب علم بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ دہلوی سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

غوث علی شاہؒ صاحب فرماتے ہیں:

’’ایک شخص شاہ صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا لباس کے اعتبار سے وہ شاہی عہدیدار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے شاہ صاحبؒ سے کہا۔ 

’حضرت میری سرگزشت اتنی عجیب و غریب ہے کہ کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ خود میری عقل بھی کام نہیں کرتی۔ حیران ہوں کہ کیا کہوں، 

کس سے کہوں، کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ اب تھک ہار کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔‘‘

اس شخص نے اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے کہا۔

’’میں لکھنؤ میں رہتا تھا برسر روزگار تھا۔ حالات اچھے گزر رہے تھے۔ قسمت نے پلٹا کھایا۔ معاشی حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ زیادہ وقت بیکاری میں گزرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ کسی دوسرے شہر میں حصول معاش کی کوشش کی جائے۔ تھوڑا سا زادِ راہ ساتھ لیا اور اُودے پور کی طرف روانہ ہو گیا راستے میں ریواڑی کے مقام پر قیام کیا۔ اس زمانے میں وہ جگہ ویران تھی صرف ایک تکیہ اور ایک سرائے آباد تھی۔ سرائے میں کچھ کسبیاں رہتی تھیں۔ میں سرائے میں متفکر بیٹھا تھا کہ کیا کیا جائے۔ پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔ ایک کسبی آئی اور کہنے لگی میاں کس فکر میں بیٹھے ہو کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ میں نے کہا ابھی سفر کی تھکان ہے۔ ذرا سستا لوں تھکن دور ہونے پر کھانا کھاؤں گا۔ یہ سن کر وہ چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد آئی اور وہی سوال کیا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا اور وہ چلی گئی۔ تیسری دفعہ آ کر پوچھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا کہ میرے پاس جو کچھ تھا خرچ ہو چکا ہے اب ہتھیار اور گھوڑا بیچنے کی سوچ رہا ہوں۔ وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دس روپے لا کر میرے حوالے کر دیئے۔ جب میں نے روپیہ لینے میں پس و پیش کیا تو اس نے کہا کہ میں نے یہ روپے چرخہ کات کر اپنے کفن دفن کے لئے جمع کئے ہیں، تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میں آپ کوقرض حسنہ دے رہی ہوں جب حالات درست ہو جائیں تو واپس کر دینا۔

میں نے روپے لئے اور خرچ کرتا ہوا اودے پور پہنچا۔ وہاں اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ فوراً ایک شاہی نوکری مل گئی۔ مالی اعتبار سے خوب ترقی ہوئی اور چند سالوں میں ریل پیل ہو گئی۔ انہی دنوں گھر سے خط آیا کہ لڑکا جوانی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے اور جہاں اس کی نسبت ٹھہرائی گئی تھی وہ لوگ شادی پر اصرار کر رہے ہیں۔ اس لئے جلد سے جلد آ کر اس فرض سے سبکدوش ہو جاؤ۔

رخصت منظور ہونے پر میں اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ ریواڑی پہنچا تو پرانے واقعات کی یاد ذہن میں تازہ ہو گئی۔ سرائے میں جا کر کسبی کے متعلق معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ سخت بیمار ہے اور کچھ لمحوں کی مہمان ہے۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے تجہیز و تکفین کا سامان کیا، اسے خود قبر میں اتارا اور سرائے میں واپس آ کر سو گیا۔ آدھی رات کے وقت پیسوں کا خیال آیا۔ دیکھا تو جیب میں رکھی ہوئی پانچ ہزار کی ہنڈی غائب تھی تلاش کیا مگر نہیں ملی۔ خیال آیا کہ ہو نہ ہو دفن کرتے وقت قبر میں گر گئی ہے۔ افتاں و خیزاں قبرستان پہنچا اور ہمت کر کے قبر کو کھول دیا۔

قبر کے اندر اترا تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ وہاں میت تھی نہ ہنڈی۔ ایک طرف دروازہ نظر آ رہا تھا۔ ہمت کر کے دروازے کے اندر داخل ہوا تو ایک نئی دنیا سامنے تھی۔ چاروں طرف باغات کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور ہرے بھرے پھلدار درخت سر اٹھائے کھڑے تھے۔ باغ میں ایک طرف ایک عالی شان عمارت بنی ہوئی تھی۔ عمارت کے اندر قدم رکھا تو ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑی۔ وہ شاہانہ لباس پہنے، بناؤ سنگھار کئے بیٹھی تھی۔ ارد گرد خدمت گار ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ عورت نے مجھے مخاطب کر کے کہا تم نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں وہی ہوں جس نے تمہیں دس روپے دیئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو میرا یہ عمل پسند آیااور اس عمل کی بدولت یہ مرتبہ اور عروج مجھے عنایت فرمایا ہے۔ یہ تمہاری ہنڈی ہے جو قبر کے اندر گر گئی تھی۔ ہنڈی لو اور یہاں سے فوراً چلے جاؤ۔

میں نے کہا کہ میں یہاں کچھ دیر ٹھہر کر سیر کرنا چاہتا ہوں۔ حسین و جمیل عورت نے جواب دیا کہ تم قیامت تک بھی گھومتے پھرتے رہو تو یہاں کی سیر نہیں کر سکو گے۔ فوراً واپس ہو جاؤ۔ تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا اس عرصے میں کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہو گی۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا اور قبر سے باہر آیا۔ تو اب وہاں سرائے تھی نہ تکیہ اور نہ ہی وہ پرانی آبادی تھی۔ بلکہ چاروں طرف شہری آبادی پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں سے سرائے اور تکیہ کے بارے میں پوچھا تو سب نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ بعض لوگوں سے اپنی یہ روایت بیان کی لیکن سب نے مجھے مخبوط الحواس قرار دیا۔ آخر کار ایک آدمی نے کہا میں تمہیں ایک بزرگ کے پاس لئے چلتا ہوں۔ وہ بہت عمر رسیدہ ہیں شاید وہ کچھ بتا سکیں۔ اس بزرگ نے سارا حال سنا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے پڑدادا بتایا کرتے تھے کہ کسی زمانے میں یہاں صرف ایک سرائے اور تکیہ موجود تھا۔ سرائے میں ایک امیر آ کر ٹھہرا تھا اور ایک رات وہ پر اسرار طور پر غائب ہو گیا۔ پھر اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ زمین نگل گئی یا آسمان نے اٹھا لیا۔ میں نے کہا میں ہی وہ امیر ہوں جو سرائے سے غائب ہوا تھا۔ یہ سن کر وہ بزرگ اور حاضرین محفل حیران اور ششدر رہ گئے اور حیران و پریشان ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔‘‘

امیر یہ واقعہ سنا کر خاموش ہو گیا اور پھر شاہ عبدالعزیزؒ سے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیں میں کیا کروں، کہاں جاؤں؟ میرا گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ۔ دوسرے یہ کہ اس واقعہ نے مجھے مفلوج کر دیا ہے۔ شاہ صاحب نے کہا:

’’تم نے جو کچھ دیکھا ہے صحیح ہے۔ اس عالم اور اس عالم کے وقت کے پیمانے الگ الگ ہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے اس شخص کو ہدایت کی کہ ’’اب تم بیت اللہ کو چلے جاؤ اور باقی زندگی یاد الٰہی میں گزار دو۔‘‘



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔