Topics

کشف

مراقبہ کی نشست میں آنکھیں بند کیں تو روشنی کے جھماکے ہونے لگے اور مختلف چیزیں نظر آنے لگیں۔ میں نے کئی قریبی رشتہ داروں کی آوازیں سنیں۔ آوازیں اتنی واضح تھیں کہ ایک دفعہ بات کا جواب زبان سے ادا ہو گیا۔ مراقبہ کے آخر میں خود کو اپنے اندر سے نکلتے اور چھت کی طرف اٹھتے دیکھا گھبرا کر آنکھیں کھول دیں اور چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے ایک ہیولےٰ کو چند سیکنڈ کے لئے چھت کی طرف بڑھتے دیکھا۔

مراقبہ میں روضہ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا پھر ایک پہاڑی سلسلہ نظر آیا۔ پہاڑ کے دامن میں خوبصورت باغ تھا۔ دور دور تک ہریالی تھی بہت ہی خوبصورت منظر تھا۔ مراقبہ میں اتنا محو ہو گیا کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔ ایک دفعہ ذہن بھٹکا تو سینے کو آہستہ آہستہ سانس کی وجہ سے ہونے والی جنبش بھی ناگوار گزری۔ مراقبہ میں ایک دوست کا خیال آیا تو یوں لگا جیسے وہ میرے سامنے کھڑا ہے۔ میں اس کو واضح طور پر دیکھ رہا تھا۔ ذہن میں رشتہ داروں کا خیال آیا اور ان کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ اگلے روز میں نے ان رشتہ داروں سے معلوم کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ وہ گذشتہ شب یہی باتیں کر رہے تھے۔

عشاء کی نماز کے لئے کھڑی ہوئی تو محسوس ہوا کہ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام امامت کر رہے ہیں۔ میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بالکل پیچھے صف میں کھڑی ہوں۔ میرے دائیں جانب حضور قلندر بابا اولیاءؒ اور بائیں جانب بابا جی(حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی) ہیں۔ دوسرے مذاہب کے برگذیدہ لوگ بھی صفوں میں موجود ہیں۔ سارا وقت یہی دیکھتی اور محسوس کرتی رہی کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم اطہر سے نور کی شعائیں نکل کر میرے اندر جذب ہو رہی ہیں۔ آپ کے نور کی روشنی میں مجھے سارا وقت آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ مبارک بہت صاف نظر آتا رہا۔ حالانکہ آپ کی پیٹھ میری جانب تھی۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام عربی لباس میں ملبوس تھے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رخ انور نہایت ہی روشن اور تابناک دکھائی دیا اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنیوں سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اطراف میں نور کا ایک ہالہ دکھائی دیا۔ میں بالکل آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیچھے تھی اس لئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی براہ راست میرے اوپر پڑ رہی تھی۔ میری تمام تر توجہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب تھی۔ اس وجہ سے میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اطراف میں کھڑے ہوئے باقی حضرات کی شکل و صورت نہ دیکھ سکی۔

میں نے دیکھا کہ میں تجلیوں سے بنی ہوئی ہوں۔ میرا جسم بہت روشن ہے اور میں ایک ایسی فضا میں بیٹھی ہوں جہاں چاروں طرف روشنی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اس نورانی فضا میں بالکل مراقبہ کی سی کیفیت میں بیٹھی ہوں۔ میں بالکل ساکت تھی اور میری کھلی ہوئی نظریں سامنے فضا میں جمی ہوئی تھیں۔ ذہن بالکل کورے کاغذ کی طرح خالی اور ساکت تھا۔ اب ایسا دکھائی دیا جیسے نظر کے سامنے سے ایک انتہائی تیز روشنی آئی اور میری پیشانی میں داخل ہو گئی۔ (سعیدہ خاتون)

رات کے سوا آٹھ بجے میں اپنے فرنٹ روم میں بیٹھی تھی کہ اچانک میرے سامنے والی دیوار پر ایک دودھیا روشنی کا تقریباً ڈیڑھ فٹ قطر کا دائرہ نمودار ہوا۔ جو ایک طرف سے شروع ہو کر چلتا ہوا دوسرے سرے پر پہنچ کر واپس آ جاتا اور پھر نئے سرے سے اس ہی جگہ سے نمودار ہوتا جہاں سے کہ پہلے شروع ہوا تھا۔ کمرے میں ٹیوب لائٹ روشن تھی مگر اس ہالہ کی روشنی ٹیوب لائٹ کی روشنی سے بھی زیادہ نمایاں تھی۔ یہ سلسلہ کوئی 10منٹ تک جاری رہا۔ اچانک اس روشنی کے فوراً بعد ایک شکل نمودار ہوئی۔ یہ شکل سابقہ لائٹ سے زیادہ روشن تھی۔ یہ شکل تقریباً 5یا 6منٹ تک سامنے رہی۔ میں ٹکٹکی باندھے بالکل ساکت اور مبہوت سی ہو کر اس نورانی شکل کو دیکھتی رہی۔ مجھے دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ جب یہ نورانی شکل نظروں سے اوجھل ہو گئی تو میرے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اور ذہن میں آیا کہ یہ تو حضور قلندر بابا اولیاءؒ تھے۔ نورانی صورت کا پوز بالکل وہی تھا جو کہ حضور سرکار قلندر بابا اولیاءؒ کا ہے۔ فوراً ہی میرے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اور میری طبیعت کچھ اس طرح کی ہو گئی کہ میں وہ کیفیت بیان نہیں کر سکتی۔ دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہو گئی کہ بس یوں لگتا تھا کہ اب باہر نکل آئے گا۔ (ریحانہ)

اچانک مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے جسم کے اندر سے ایک جسم نکل رہا ہے پھر وہ جسم کھڑکی سے ہوتا ہوا آسمان کی بلندیوں پر جانے لگا۔ جسم کے اوپر سفید نوری لباس تھا۔ پوری فضا بھی سفید دھویں سے بھری ہوئی نظر آ رہی تھی۔ اس نورانی جسم نے سات راستوں کو عبور کیا جیسے جیسے وہ جسم اوپر جاتا رہا۔ منظر نہایت دل کش، ہر طرف سفید روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ وہ جسم کچھ پریشان سا ہے۔ اتنے میں اس روشن جسم نے منہ اوپر اٹھایا تو آواز آئی ’’اللہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ جب یہ آواز میرے روحانی جسم نے سنی تو میرے مادی وجود پر لرزہ طاری ہو گیا۔ دل دھڑکنے لگا۔ پھر اللہ اکبر کی آواز آئی اور میں جھک گیا۔ پھر سجدہ کیا۔ دل چاہا کہ زندگی بھر سجدہ میں پڑا رہوں۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے فرشتے ہاتھ باندھے بڑے ادب سے دو قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ جن کا منہ ایک دوسرے کی طرف ہے۔ ان کے درمیان 5یا 6فٹ کا فاصلہ ہے۔ میرا روحانی جسم اس درمیانی جگہ آ گیا۔ سامنے جیسے ہی نگاہ اٹھی میرے اوپر کپکپی طاری ہو گئی۔

مراقبہ میں آنکھیں بند کرکے بیٹھا تو چند لمحے بعد محسوس ہوا کہ میں اپنے گوشتپوست کے جسم سے باہر آ گیا ہوں۔ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضۂ اطہر پر حاضر ہوں۔ جیسے ہی یہ کیفیت ہوئی دل ہی دل میں درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ جسم و جاں کو محسوس ہوا کہ جالی مبارک کے اندر سے ٹھنڈی روشنی نکل کر مجھ پر پڑ رہی ہے۔ پھر دیکھا کہ میں خانہ کعبہ میں ہوں۔ خانہ کعبہ سے چند ہی لمحوں میں آسمان کی طرف پرواز شروع کر دی۔ راستے میں مختلف لوگ نظر آئے۔ بعض لوگوں کو میں جانتا ہوں۔ رفتہ رفتہ ایسی جگہ پہنچ جاتا ہوں جہاں سے آگے جانے کی سمت راستہ نہیں ہے۔ یہاں فرشتوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ اس کیفیت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکا۔ پھر دیکھا کہ میں اپنے کمرہ میں ہوں۔ محسوس ہوا کہ میرا وجود سارے کمرے پر محیط ہے اور مراقبہ ختم کر دیتا ہوں۔ مغرب سے جنوب کی طرف روشنیوں کا یہ وجود سفر کر رہا ہے۔ میں گھر کے سامنے آ کر رک جاتا ہوں۔ تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ میں خود ہی ہوں۔ زیادہ توجہ سے دیکھتا ہوں تو پیدائش کے وقت سے لے کر آج تک کے حالات ویڈیو فلم کی طرح نظر آتے ہیں۔ جن میں تلخ یادیں، خوشی، اچھائیاں، برائیاں سب موجود ہیں۔ زیادہ توجہ کرتا ہوں تو مستقبل کی باتیں بھی نظر آتی ہیں کچھ باتیں صاف سمجھ لیتا ہوں۔ کچھ زیادہ واضح نہیں ہوتیں۔ اس مثالی وجود کو دیکھتا ہوں کہ نور کے تاروں سے آسمان کے بہت اوپر کسی چیز کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ لیکن اس چیز کو زیادہ دیر تک دیکھ نہیں سکتا۔ پھر مراقبہ ختم کر دیتا ہوں۔ (علی اصغر)

دیکھتی ہوں کہ مرشد کریم حضور بابا جی میرے ساتھ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ آؤ تمہیں آسمانوں کی سیر کراتے ہیں۔ ہم اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا جسم بہت ہی ہلکا پرندے کی مانند ہے۔ ہم اڑتے ہوئے آسمانوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ آسمانوں کے اندر ہم تیز روشنی کے بادل کے اندر سے گزرتے ہیں۔ پھر ایک شفاف فضا آ جاتی ہے۔ جس میں نیچے بہت ہی صاف دکھائی دیتا ہے۔ نیچے زمین پر شہر آباد ہیں۔ لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے دکھائی دیئے۔ یہ علاقہ بہت ہی سرسبز ہے۔ بہت بڑے بڑے شفاف دریا بہہ رہے تھے۔ دریاؤں کے کنارے کنارے لوگوں نے کاشتکاری کی ہوئی تھی اور پھل اور سبزیاں اگائی ہوئی تھیں۔ ایک نظر میں یہ سب کچھ دیکھ کر ہم پھر اوپر کی جانب اڑنے لگے۔ پھر روشنیوں کے بادل کے اندر سے ہمارا گزا ہوا۔ اور ہم ایک شفاف فضا میں آ گئے۔ جس کے اندر دور دور تک نظر پہنچتی تھی اور بہت صاف دکھائی دیتا تھا۔ جگہ جگہ بستیاں اور وادیاں نظر آتی تھیں۔ ہم اسی روشنیوں اور نور کے بادل میں سے گزر کر ایک شفاف فضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ہر روشنی اور نور کے بادل میں سے گزرتے ہوئے یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ آسمان کی سرحد ہے۔ میں نے مرشد کریم سے کہا کہ بابا جی میں تو سمجھی تھی کہ د و آسمانوں کے درمیان ایسا پردہ ہو گا جو لوہے یا اسٹیل کا ہو گا جس کے اندر بغیر اجازت ہر کوئی داخل نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی کوئی چوری سے اس کو پار کر سکے گا۔ مگر یہاں تو صرف روشنیاں ہیں اور روشنی کے اندر سے تو بڑی آسانی سے گزرا جا سکتا ہے۔ یہ تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ مرشد کریم بابا جی نے فرمایا۔

’’آسمان انسان کی حد نظر ہے جب شعور لاشعور کی فضاؤں میں داخل ہوتا ہے تو شعور کی بینائی آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور انسان کی باطنی نظر لاشعور یا غیب کے عالمین میں دیکھتی ہے۔ غیب کے عالمین کو دیکھنے کے لئے اللہ کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ مگر ہر آسمان کی حدود میں جو عالمین آباد ہیں وہاں اللہ کی مختلف صفات کی روشنیاں کام کر رہی ہیں۔ شعور کی نظر اس لئے آسمان کی حدود کو پار نہیں کر سکتی کیونکہ شعور اسمائے الٰہیہ  کی روشنیوں کے قانون سے ناواقف  رہتا ہے۔مگر جو بندہ اسمائے الٰہیہ کے علوم اور ان کے قوانین سے واقف ہو جاتا ہے وہ اپنے ارادے اور شعور کے ساتھ لاشعور کے اندر داخل ہو جاتا ہے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے غیب کی دنیا کا مشاہدہ اپنی باطنی نظر کے ساتھ کر لیتا ہے۔ ہر آسمان کی سطح اسمائے الٰہیہ کی ان روشنیوں سے بنی ہے جن کی روشنی یا شعاعیں اس عالمین میں داخل ہو کر عالمین کی تخلیق کرتی ہیں۔ آسمان کی سطح پر اسمائے الٰہیہ کی روشنیاں جمع ہونے کی وجہ سے نظر ان روشنیوں کے پار دیکھنے سے معذور رہتی ہے۔ مگر جب بندہ اللہ کی ذات اور صفات میں تفکر کرتا ہے تو اسمائے الٰہیہ کی یہ روشنیاں اس کے اندر جذب ہونے لگتی ہیں۔ اور یہ روشنیاں خود اپنا تعارف بندے سے کراتی ہیں۔ اس طرح شعور ان روشنیوں سے واقف ہو جاتا ہے اور شعور کا واقف ہونا ہی شعو ر کا دیکھنا ہے۔ اس دنیا میں بندہ جس حد تک اسمائے الٰہیہ کے علوم سیکھتا جاتا ہے اور اس میں یہ روشنیاں جذب ہوتی جاتی ہیں۔ مرنے کے بعد بندے کا اعراف انہی حدود کے اندر قائم ہوتا ہے۔ یعنی مرنے کے بعد بندہ اپنے ظاہری حواس کے ساتھ اور ظاہری نظر کے ساتھ ان عالمین میں رہتا ہے۔‘‘ مرشد کریم بابا جی کی زبانی یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے کہا:

’’بابا جی ان عالمین میں داخل ہونے اور ان کو دیکھنے اور ان کی سیر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان دنیا میں ہی ان کے متعلق علوم حاصل کرے۔‘‘

بابا جی نے فرمایا کہ:

’’صرف علم حاصل کرنا یا صرف جاننا ہی ضروری نہیں، اسمائے الٰہیہ کی صفات جب تک بندے کے اندر پیدا نہ ہو جائیں تب تک بندہ ان عالمین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے سات آسمان بنائے ہیں تا کہ بندہ ایک ایک آسمان پر کام کرنے والی روشنیوں کے علوم آہستہ آہستہ سیکھتا جائے اور دھیرے دھیرے اس کا شعور ان روشنیوں کو بتدریج جذب کرتا جائے۔ ہر آسمان شعور کی نشوونما کے مدارج ہیں۔ ہر آسمان شعور کی مختلف اسپیڈ کو ظاہر کرتا ہے یعنی شعور کے اندر موجود حواس جب اس رفتار سے حرکت کرنے لگتے ہیں۔ جو رفتار آسمانوں کے اندر بسنے والے عالمین میں کام کر رہی ہے اور ان آسمانوں کے عالمین میں جو مخلوق آباد ہے بندے کے حواس کی رفتار جب اس مخلوق کے اندر کام کرنے والے حواس کے برابر ہو جاتی ہے تب بندہ اس آسمان میں داخل ہو کر وہاں کے عالمین کی سیر کرتا ہے۔ اور وہاں کے علوم حاصل کرتا ہے۔‘‘

مرنے کے بعد جس عالم میں روحیں منتقل کی جاتی ہیں وہ عالم اعراف ہے۔ مراقبہ میں دیکھتی ہوں کہ مرشد کریم بابا جی کا ہاتھ میرے سر پر چھتری کی طرح رکھا ہے۔ اور آپ کی انگلیوں سے نور کی دھاریں نکل کر میرے ذہن کے اندر جذب ہوتی جا رہی ہیں۔ جس سے سارا دماغ اندر باہر سے بہت روشن ہو گیا ۔ اور میں فضا میں پرندے کی طرح اڑنے لگی مگر اس اڑان کے دوران بھی بابا جی کاہاتھ چھتری کی طرح اپنے سر پر دیکھتی رہی۔ اڑتے ہوئے سارا وقت میں دل ہی دل میں اللہ کی حمد و ثنا اور شکر و ذکر کرتی رہی۔ ساتھ ساتھ نیچے بھی دیکھتی رہی کہ کن کن مقامات سے گزر رہی ہوں۔ نیچے نظر گئی تو اعراف کی زمین دکھائی دی۔ میں نے سوچا چلو اس کی سیر کرتے ہیں۔ میں اس زمین پر نیچے اتر آئی۔ نیچے اترتے ہی میں گھومنے پھرنے کی نیت سے سڑکوں پر چلنے لگی۔ بڑا خوبصورت شہر تھا۔ جگہ جگہ باغات تھے۔ نہریں تھیں اور موسم بے حد حسین تھا۔ میرا دل برابر اللہ کا ذکر و شکر کر رہا تھا۔ اس دوران ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جہاں چھوٹے چھوٹے گھر تھے اور اتنے خوبصورت موسم اور قدرت کی اتنی رنگینیوں کے باوجود بھی لوگ اپنے اپنے گھروں میں محبوس تھے۔ اندر نظر گئی تو دیکھا کہ سارے لوگ الگ الگ کمروں میں گردن جھکائے غم سے نڈھال بیٹھے ہیں۔ جیسے ان کے اندر اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ وہ کم سے کم گردن ہی اٹھا کر خوبصورت ماحول کا نظارہ کر سکیں، تا کہ ان کے دل خوش ہوں۔ مجھے محسوس ہوا یہ سب لوگ دنیا کی یاد میں بے حال ہیں۔ ذہن میں آیا، اللہ نے تو انہیں نہیں روکا کہ تم فطرت کے ان حسین مناظر سے لطف اندوز نہ ہو۔ ان لوگوں نے خود ہی اپنے آپ کو ان کوٹھریوں میں بند کر لیا ہے۔ اگر یہ لوگ دو قدم باہر آ جائیں تو کھلی فضا ان کے سارے غم دھو دے اور ان کے اندر صحتمند خوشیاں بھر دے۔ کچھ لوگ جانے پہچانے دکھائی دیئے۔ میں نے انہیں سمجھایا اور باہر آنے پر آمادہ کیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے آگے چلی تو دیکھتی ہوں کہ بہت ماڈرن بستی ہے۔ بڑی ہی خوبصورت محل نما کوٹھیاں ہیں۔ ان کوٹھیوں کے ڈیزائن جیومیٹری کے ڈیزائن پر تھے اور بہت ہلکے ہلکے رنگوں کے پینٹ مکانوں پر تھے اور بہت ہی بھلے لگتے تھے۔ اتنے میں ایک جانا پہچانا آدمی نظر آیا۔ اس کا انتقال چند دن پہلے ہوا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بے حد خوش ہوا اور بولا۔

آنٹی! آپ یہاں کہاں؟ اس نے بہت خوبصورت سوٹ پہنا ہوا تھا۔ مجھے بھی اس سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے کہا۔ میں تو اعراف کے ایسے کونے میں جا نکلی تھی کہ جس کو دیکھ کر خوشی کے بجائے رنج و ملال ہو اہے۔ اچھا ہوا تم مل گئے۔ کہنے لگا۔ آئیے آنٹی میں آپ کو سیر کراتا ہوں۔ پہلے میں آپ کو اپنے گھر لے چلتا ہوں۔ اس نے مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا۔ مجھے اس نے بتایا کہ گاڑی ہم نے ڈیزائن کی ہے۔ یہ فلائنگ ساسر کی طرح گاڑی تھی۔ بڑی ہی خوبصورت اس میں بیٹھے تو نہ اسٹئرنگ وھیل نہ گیئر، کچھ بھی نہ تھا۔ صرف لفٹ کی طرف اوپر نیچے جانے آنے کے لئے چند بٹن لگے ہوئے تھے۔ میں نے کہا یہ چلے گی کیسے؟

آنٹی بس آپ کو جہاں جانا ہے اس کا خیال دل میں لے آیئے۔ اس بٹن نما جگہ پر لائٹ جل جائے گی پھر یہ گاڑی خود بخود اس جگہ پہنچا دے گی اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے خیال کیا۔ لائٹ جلی اور گاڑی تیز رفتار چل پڑی۔ بہت خوبصورت سفید محل کے سامنے رکی۔ اس کا ڈیزائن بھی جیومیٹری کے مثلث، چوکور وغیرہ قسم کے زاویوں پر بنا ہو اتھا۔ مگر دیکھنے میں بہت ہی خوبصورت لگتا تھا۔ اس نے مجھے گھر کی سیر کرائی، وہاں کی گاڑیاں دکھائیں۔ بہت ماڈرن چیزیں تھیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہاں کے لوگوں کے دماغ بہت تیز ہیں ، دنیا والے یہاں سے بہت پیچھے ہیں۔ مگر یہاں بھی کچھ بستیاں ایسی تھیں جہاں پر لوگ ابتدائی حالت میں زندگی گزار رہے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ لوگ جو دنیا میں اپنے اوپر اللہ کے علوم کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ وہ یہاں آ کر اور بھی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں کی نارمل رفتار ہماری دنیا سے کم از کم 10ہزار گنا تک ہے۔ ذہن کی رفتار سوائے علم کے اور کسی شئے سے نہیں بڑھ سکتی اور ذہن کی رفتار جتنی تیز ہو گی عمل کی رفتار بھی اسی مناسبت سے ہوتی ہے۔ پھر ایسی تیزرفتار زندگی میں معاشرے کے اندررہنے کے لئے ذہن کا اسی تناسب کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ ورنہ انسان اپنی تنہائی کی کوٹھری میں بند ہو جاتا ہے اور اپنے حال پر خود اس کی ذات کے سوا ترس کھانے والا کوئی نہیں ملتا۔ یہ سب دیکھ کر میں نے اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے ایسے علوم سیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ (بیگم عبدالحفیظ بٹ)



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔