Topics

معاون مشقیں

روحانی علوم میں مراقبے کے علاوہ ایسی مشقیں موجود ہیں جو ذہن کو یکسو کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان مشقوں سے منفی خیالات کی رو مدھم پڑ جاتی ہے اور ذہنی انتشار کم سے کم ہو جاتا ہے۔ اگر مراقبے کے ساتھ ان مشقوں پر بھی عمل کیا جائے تو ذہن بہت جلد مرکزیت حاصل کر لیتا ہے اور مراقبہ کے اثرات جلدی مرتب ہوتے ہیں۔

یوں تو ایسی مشقیں بہت سی ہیں لیکن یہاں صرف دو مشقیں درج کی جا رہی ہیں جو عملی لحاظ سے آسان اور نتائج کے اعتبار سے موثر ہیں۔

سانس:

جذباتی اتار چڑھاؤ اور اعصابی نظام میں سانس بہت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف جذباتی کیفیات میں سانس کی حرکات الگ الگ ہوتی ہیں۔ صدمے کی حالت میں سانس لینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ غصہ میں سانس کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ ذہنی سکون میں سانس کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت سانس میں توازن پیدا ہو جاتا ہے اور رفتار ہلکی ہو جاتی ہے۔ کوئی چیز یکایک اعصاب پر بوجھ بن کر وارد ہو تو اندر کا سانس اندر اور باہر کا سانس باہر رہ جاتا ہے۔

روحانی صلاحیتوں اور سانس کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ علم روحانیت کے مطابق سانس کے دو رخ ہیں۔ ایک نزولی اور دوسرا صعودی۔ سانس اندر لینا صعودی رخ ہے اور سانس باہر نکالنا نزولی رخ ہے۔ صعودی رخ میں آدمی روحانی کیفیات سے قریب ہو جاتا ہے اور نزولی حالت میں کشش ثقل کی طرف سفر کرتا ہے۔ اگر سانس زیادہ دیر تک اندر رہے یا سانس اند رلینے کا وقفہ بڑھ جائے تو ہم زیادہ دیر تک روحانی کیفیات سے قریب رہتے ہیں۔

اگر سانس کی آمد و شد ختم ہو جائے تو ہمارا تعلق جسم سے منقطع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شعور میں رہتے ہوئے لاشعوری حواس میں داخل ہونے کے لئے سانس سے قطع تعلق کرنا ضروری نہیں۔ لیکن سانس کا بہت آہستہ ہونا لازمی ہے۔ اس کی مثال خواب یا گہرے استغراق کی کیفیت ہے۔ ان کیفیات میں انسان سانس تو لیتا ہے لیکن سانس کی آمد و شد کا انداز تبدیل ہو جاتا ہے۔ سانس کی رفتار ہلکی ہو جاتی ہے۔ سانس اندرلینے کا وقفہ بڑھ جاتا ہے اور باہر نکالنے کے دورانیے میں کمی آ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ہمارے اوپر باطنی حواس کا غلبہ ہوتا ہے تو سانس کی رفتار مدہم پڑ جاتی ہے اور سانس اندر لینے کا وقفہ بڑھ جاتا ہے۔

جب اس انداز تنفس کی ارادے کے ساتھ مشق کی جاتی ہے تو لاشعوری کیفیات بیداری میں شعور پر وارد ہوتی ہیں اور ان کی گردش زیادہ وقفے تک شعور میں جاری رہتی ہے۔

مشق نمبر :1

* آلتی پالتی مار کر یا دو زانو بیٹھ جائیں۔

* کمر سیدھی رکھیں لیکن جسم کے کسی حصے میں کھنچاؤ پیدا نہیں ہونا چاہئے۔

* پہلے دونوں نتھنوں سے سانس باہر نکال دیں تا کہ پھیپھڑے ہوا سے خالی ہو جائیں۔

* پھر آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں۔

* جب سینہ ہوا سے بھر جائے تو سانس کو روکے بغیر ہونٹوں کے راستے باہر نکال دیں۔

* سانس نکالتے ہوئے ہونٹوں کو سکیڑ کر گول دائرہ بنائیں جیسے سیٹی بجاتے ہوئے بناتے ہیں۔

* سانس اندر لینا اور باہر نکالنا ایک چکر ہوا۔ اس طرح گیارہ چکر کریں اور رفتہ رفتہ تعدادبڑھا کر اکیس چکر کر 

دیں۔

اس مشق سے پھیپھڑوں کی حرکات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور سانس اندر لینے کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ مراقبہ کے وقت سانس کی رفتارہلکی ہونی چاہئے۔ یہ بات یاد رکھئے کہ مراقبہ کے دوران سانس کی رفتار کو ارادے کے ساتھ آہستہ نہ کیجئے۔ اس لئے کہ ذہن مراقبہ سے ہٹ کر سانس کی آمد و شد کی طرف چلا جائے گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مراقبہ شروع کرنے سے کچھ دیر پہلے آہستہ آہستہ سانس اندر لیں اور باہر نکالیں پھر مراقبہ میں مشغول ہو جائیں۔ سانس کی رفتار خود بخود مدہم ہو جائے گی۔

مشق نمبر:2

مشق نمبر 1میں بتائی گئی نشست میں بیٹھ کر دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیں۔ دونوں نتھنوں سے سانس آہستہ آہستہ اندر کھینچیں۔ جب سینہ ہوا سے بھر جائے تو سانس کو سینے میں روک لیں۔ پانچ سیکنڈ تک سانس روکے رکھیں۔ پھر ہونٹوں کو سیٹی بجانے کے انداز میں کھول کر سانس کو منہ کھول کر باہر نکال دیں۔ کچھ دیر آرام کے بعد دوبارہ اسی طرح سانس اندر لیں، روکیں اور نکال دیں۔ یہ عمل پانچ مرتبہ کریں۔ اگلے روز دو چکروں کا اضافہ کر دیں۔ یعنی سات مرتبہ یہ عمل کریں۔ یہاں تک کہ چکروں کی تعداد گیارہ ہو جائے۔ جب چکروں کی تعداد گیارہ ہو جائے تو سانس روکنے کا وقفہ پانچ سیکنڈ سے بڑھا کر چھ سیکنڈ کر دیں اور چکروں کی تعداد گیارہ ہی رکھیں۔ جب چھ سیکنڈ تک سانس روکنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ یعنی ذہنی اور جسمانی دباؤ محسوس نہ ہو تو سانس اندر روکنے کا وقفہ سات سیکنڈ کر دیں اور اس وقت تک سات سیکنڈ وقفہ رکھیں جب تک اس پر عبور حاصل نہ ہو۔ اس طرح سانس روکنے کا وقفہ بڑھاتے ہوئے پندرہ سیکنڈ تک کر دیں اور پندرہ سیکنڈ کو معمول بنا لیں۔

مشق نمبر:3

مشق نمبر 1میں بیان کئے گئے انداز نشست میں بیٹھ کر سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے سے سیدھی طرف کا نتھنا بند کر کے بائیں نتھنے سے چار سیکنڈ میں سانس اندر لیں۔ سانس کھینچنے کے بعد سینے میں روک لیں اور ہاتھ کی آخری دو انگلیوں سے بایاں نتھنا بند کر لیں۔ اس حالت میں سیدھا نتھنا انگوٹھے سے بند ہو گا۔ آخری دو انگلیوں سے بایاں نتھنا بند کیا ہو گا اور باقی دو انگلیاں دونوں ابروؤں کے درمیان پیشانی پر رکھی ہونگی۔ سانس کو چار سیکنڈ تک سینے میں روکیں اور صرف انگوٹھا سیدھے نتھنے پر سے ہٹا کر سانس کو چار سیکنڈ تک باہر نکال دیں۔ بغیر رکے ہوئے اسی نتھنے سے چار سیکنڈ میں سانس اندر کھینچیں اور انگوٹھے سے سیدھا نتھنا دوبارہ بند کر لیں۔ چار سیکنڈ تک سانس روکیں پھر بائیں نتھنے پر سے دونوں انگلیاں ہٹا کر چار سیکنڈ میں سانس باہر نکال دیں۔ یہ ایک چکر مکمل ہوا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد دوبارہ یہی عمل دہرائیں۔ اس طرح تین چکر مکمل کریں اور روزانہ ایک چکر کا اضافہ کرتے ہوئے سات چکر تک لے جائیں۔ جب چار سیکنڈ روکنے اور سات چکر کرنے پر مکمل قدرت حاصل ہو جائے تو چار سیکنڈ میں سانس اندر کھینچیں، روکنے کا وقفہ چھ سیکنڈ رکھیں اور چار سیکنڈ میں باہر نکالیں۔ چکروں کی تعداد حسب سابق سات ہی رکھیں۔ جب چھ سیکنڈ تک سانس روکنے اور سات چکر مکمل کرنے پر کنٹرول حاصل ہو جائے تو صرف روکنے کا وقفہ دو سیکنڈ بڑھا دیں۔ اس طرح دو دو سیکنڈ روکنے کا وقفہ بڑھاتے ہوئے سولہ سیکنڈ تک لے جائیں۔ جب سولہ سیکنڈ سانس روکنے اور سات چکر مکمل کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہ ہو تو صرف باہر نکالنے کا وقفہ بڑھا کر آٹھ سیکنڈ کردیں۔ یعنی چار سیکنڈ میں سانس اندر لینا، سولہ سیکنڈ روکنا اور آٹھ سیکنڈ میں باہر نکالنا۔ اس کے بعد انہی وقفوں پر مسلسل عمل کرتے رہیں۔

سانس کی ہر مشق معتدل کھانا کھانے کے کم از کم ڈھائی گھنٹے بعد کی جائے۔ سانس کی مشقوں کا بہترین وقت صبح سورج نکلنے سے پہلے کا ہے۔ اس وقت نہ صرف انسان کو ذہنی اور جسمانی چستی حاصل ہوتی ہے بلکہ فضا میں آکسیجن بھی زیادہ ہوتی ہے اور برقی مقناطیسی لہروں میں شدت آ جاتی ہے۔ سانس کی مشقوں کا دوسرامناسب وقت رات کو سونے سے پہلے ہے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔