Topics

مرتبہ احسان

100بار درود شریف اور 100بار یا حیّ یا قیوم پڑھ کر بند آنکھوں سے یہ تصور کیا جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس مراقبہ سے بندہ کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہو جاتا ہے اور اس کے اندر سے خوف اور غم ختم ہو جاتا ہے۔

مرتبہ احسان کا مراقبہ قیام صلوٰۃ کے لئے نہایت ہی مفید مشق ہے۔ جیسا کہ ہمارے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: جب نماز میں کھڑے ہو تو یہ تصور کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو یا اللہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس مراقبہ کی مشق سے اللہ کا تصور قائم ہو جاتا ہے اور نماز میں سرور آنے لگتا ہے۔

سعدیہ خانم، شاہ کوٹ سے لکھتی ہیں:

مرشد کریم کی اجازت سے میں نے مرتبہ احسان کا مراقبہ شروع کیا۔ اس کی کیفیات درج ذیل ہیں۔

مراقبہ میں دیکھتی ہوں کہ میں عرش کے نیچے ہوں۔ جس زمین پر ہوں۔ وہ زمین پارے کی ہے اور میرے لئے نہایت ہی نرم و ملائم بستر لگا ہوا ہے۔ میں اس پر نہایت ہی آرام سے بیٹھی ہوں۔ اوپر سے اللہ تعالیٰ کے نور کی روشنی مجھ پر پڑ رہی ہے۔ خیال آیا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بینائی کا نور ہے اور اللہ پاک مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مجھے نہایت ہی محبت اور شفقت محسوس ہوئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک چھوٹی سی بچی ہوں۔ میرے دل میں اللہ پاک کو دیکھنے کا شوق ہے۔ میں نے اللہ میاں سے پوچھا۔ یا اللہ میں کب آپ کو دیکھ سکوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ابھی تم بہت چھوٹی ہو۔ جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو پھر ہم کو دیکھ سکو گی۔ میں اللہ میاں سے برابر سوال کئے جا رہی ہوں۔ کہ میں کب بڑی ہوں گی۔ مجھے آپ کو دیکھنے کا بہت اشتیاق ہے۔ پھر اس کے بعد خیال آیا کہ اللہ میاں کو میں تو نہیں دیکھ سکتی۔ مگر اللہ میاں تو مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ میاں میری بات بھی سمجھ رہے ہیں۔ میں بھی جب بڑی ہو جاؤں گی تو اللہ میاں کو دیکھ لوں گی۔ اس خیال نے میرے اندر ایک اطمینان بھر دیا۔ میرا رواں رواں اس اطمینان کی خوشی اور لطافت کو محسوس کرنے لگا۔

رشید خان، ڈیرہ غازی خان:

مرشد کریم کی اجازت سے مرتبہ احسان کا مراقبہ کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عرش کے نیچے کھڑا ہوں اور عرش سے نور کا دریا آبشار کی صورت میں میرے اوپر آ رہا ہے۔ اس کی شعاعیں میرے سر سے اندر داخل ہو کر میری آنکھوں کے اندر جذب ہونے لگیں اور مجھے ایسا لگا کہ میں نے دوربین لگا لی ہے۔ جس سے مجھے صاف دکھائی دے رہا ہے۔ میں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ اس نور کی دھار میرے جسم کے ارد گرد لباس بن کر لپٹتی جا رہی ہے۔ ہر دھار کے ساتھ ایک لباس میرے جسم سے لپٹتا محسوس ہوا۔ جیسے کوئی ایک پر ایک کپڑا پہنتا جائے۔ 

یہ تمام نور کے کپڑے مجھے میری جلد کے ساتھ چمٹتے محسوس ہوئے۔ دیکھنے میں یہ بہت خوبصورت لباس نظر آتے تھے۔ اس طرح 35لباس اس حسین نور نے مجھے پہنائے اور بہت دیر تک نور میری آنکھوں میں جذب ہوتا رہا۔ پھر میری نگاہ عرش کو دیکھنے لگی۔ اب عرش سے نور آنا بند ہو گیا۔ مگر مجھے احساس ہوا کہ عرش پر ذات باری تعالیٰ موجود ہیں۔ میں انتہائی محویت کے عالم میں اپنے رب کو دیکھنے لگا۔ پھر مجھے یوں لگا کہ اللہ پاک کے اندر سے نور پھوٹ رہا ہے اور یہ نور میرے اوپر پڑ رہا ہے۔ یہ نور پہلے سے بھی زیادہ روشن اور لطیف تھا۔ اس کی روشنی میں میرا چہرہ افشاں کی طرح چمکنے لگا۔ پھر مجھے اللہ تعالیٰ بہت ہی قریب محسوس ہوئے۔ بار بار میرے ذہن میں یہ آیت آنے لگی۔

نحن اقرب الیہ من حبل الوریدo262

مراقبہ میں سارا وقت مجھے اللہ کی قربت اور اس کے نور کا احساس رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں انتہائی لطیف روشنیوں سے بنا ہوا ہوں۔ 

اس لطافت کو میرے قلب اور دماغ نے بھی محسوس کیا اور اللہ تعالیٰ کی بے پناہ محبت میرے اندر محسوس ہوئی۔ میرا جی چاہا میں ہر وقت اسی طرح اللہ پاک سے قریب رہوں۔ اس لمحے سوائے قربت کے اور کوئی تقاضہ میرے اندر نہ تھا۔

نوٹ:

راہ سلوک کے مسافر اپنے مرشد کریم کی اجازت سے مراقبہ کریں۔

ہم بتا چکے ہیں کہ روحانیت شاگرد کے اندر ایسی حالت پیدا کر دیتی ہے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق اس حد تک محسوس کر لیتا ہے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔ صلوٰۃ کا پروگرام اس بات کی تکرار ہے کہ بندے کا تعلق ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ سے قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ہر آن اس کے ساتھ موجود ہے۔ جب انسان صلوٰۃ کے اندر اس بات کی مشق مکمل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا ادراک مشاہدہ بن جاتا ہے۔ اس مقام کو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مرتبہ احسان کا نام دیا ہے۔

* نماز فجر سے تقریباً بیس منٹ پہلے تمام ضروریات سے فارغ ہو کر مصلے پر اس طرح بیٹھ جائیں جیسے التحیات پڑھتے وقت 

بیٹھتے ہیں۔

* آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ آپ اللہ کے حضور حاضر ہیں اور اللہ آپ کے سامنے موجود ہے۔

* پانچ سے دس منٹ تک یہ تصور کرنے کے بعد نماز فجر قائم کریں۔ دوران نماز اللہ کو اپنے سامنے موجود دیکھنے کا تصور قائم رکھیں۔ نماز اس تصور میں ادا کریں کہ اللہ آپ کے سامنے موجود ہے اور آپ نماز کے تمام ارکان بارگاہ ایزدی میں انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گا اور جسم نماز کے ارکان ادا کر رہا ہو گا۔ نماز میں آیات کی تلاوت کے وقت یہ تصور کریں کہ آپ اللہ سے مخاطب ہیں۔

سلام پھیرنے کے بعد التحیات کی نشست میں بیٹھے بیٹھے چند منٹ تک اللہ کی موجودگی کا تصور جاری رکھیں۔

اگر آپ کو اللہ کو دیکھنے کا تصور قائم کرنے میں دشواری محسوس ہو تو یہ تصور کریں کہ آپ اللہ کے حضور موجود ہیں اور اللہ آپ کی تمام حرکات و سکنات ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک تصور قائم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ابتداء میں تصور قائم نہ ہو سکے تو فکر مند نہ ہوں۔ متواتر اسی طریقے پر عمل پیرا رہیں۔ انشاء اللہ جلد تصور قائم ہو گا اور نماز میں اللہ کی قربت کا حقیقی لطف حاصل ہو گا۔

نماز ظہر اور عصر میں نماز سے پہلے چند منٹوں کے لئے اللہ حاضری اللہ ناظری کا ورد کریں اور اللہ کی موجودگی کا تصور کریں۔ پھر ساری رکعتیں اسی تصور کے ساتھ ادا کریں۔ مغرب کی نماز میں وقت کی کمی کے باعث نماز سے پہلے استغراق کی مشق اور تصور نہ کریں بلکہ ساری رکعتیں اس تصور میں ادا کریں کہ میں اللہ کے سامنے ہوں۔

نماز عشاء سے پہلے التحیات کی نشست میں بیٹھ کر اللہ کی موجودگی کا تصور پانچ منٹ تک کرنے کے بعد فرض نماز اسی تصور میں قائم کریں۔

رات کو سونے سے پہلے کسی بھی آرام دہ نشست میں بیٹھ کر اللہ کو دیکھنے کا تصور یا یہ تصور کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے، دس منٹ تک قائم رکھیں اور پھر سو جائیں۔

اگر نماز میں دل نہ لگے یا نمازیں بار بار قضا ہوتی ہیں تو چالیس روز نماز فجر کی نماز با جماعت ادا کریں۔ انشاء اللہ کوئی نماز قضا نہیں ہو گی۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔