Topics
’’لا‘‘ کے معنی نہیں یا نفی کے ہیں۔ ’’لا‘‘ اللہ کی ایک صفت کے انوار کا نام ہے۔ ایسی صفت جس کا تجزیہ ہم ذات انسانی میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفت انسان کا لاشعور ہے۔ عمومی طرزوں میں لا شعور اعمال کی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ جن کا علم عقل انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غورو فکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتے یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویت اور مفہوم ہمارے ذہن میں صرف’’لا‘‘ کی ہوتی ہے۔ یعنی ہم اس کو صرف نفی تصور کرتے ہیں۔
ہر ابتداء کا قانون ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جب ابتداء کی معنویت سے بحث کرتے ہیں یا اپنے ذہنی مفہوم میں کسی چیز کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے تصور کی گہرائیوں میں صرف ’’لا‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے یعنی ہم ابتداء کے پہلے مرحلے میں صرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں۔
جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہو گئی خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو بہرصور ت معرفت ہے اور ہر معرفت ایک حقیقت ہوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لا علمی کی معرفت کا نام بھی علم ہی رکھیں۔ اہل تصوف لاعلمی کی معرفت کو علم ’’لا‘‘ اور علم کی معرفت کو علم ’’لا‘‘ کہتے ہیں۔
’’لا‘‘ کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں۔ لا کے انور سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ نقطہ اول ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔
اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’’لا‘‘ کے مراقبہ سے ذہن میں خضر علیہ السلام، اولیاء تکوین اور ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے اور ان سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے۔ لا کی ایک صلاحیت خضر ؑ ، اولیاء تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوال و جواب کی نوبت آ جاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے ہیں۔
’’لا‘‘ کے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کے لئے کوئی روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر اس طرح باندھا جاتا ہے کہ پپوٹوں پر ہلکا سا دباؤ پڑتا رہے۔ مراقبے میں سالک تمام خیالات اور تصورات سے ذہن ہٹا کر اپنی ذات کی گہرائیوں میں مرکوز کر دیتا ہے۔ تا کہ اس کے اوپر ایک طرح کی بے خیالی طاری ہو جائے۔ وہ اپنے خیال میں لا علمی کی حالت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔