Topics
امراض اور بیماریوں کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کر جاتی ہے۔ ان امراض کی نوعیت اور وجوہات بھی الگ الگ ہیں۔ ’’روحانی نظریہ علاج‘‘ کے مطابق امراض کے دو رخ ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسرا ذہنی یا روحانی۔ جسمانی نظام میں کسی بے اعتدالی ، کیمیائی یا طبعی تبدیلی کا نام مرض ہے۔ روحانی نظریہ علاج میں ہر مرض کے خدوخال ہوتے ہیں اور ہر مرض کا روحانی وجود بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ موجودہ دور میں نفسیاتی اور طبعی امراض کا جو کردار سامنے آیا ہے اس کی روشنی میں اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ روحانی علم کا نظریہ علاج یہ ہے کہ امراض کے جسمانی وجود کے ساتھ ساتھ روحانی یا ذہنی وجود پر ضرب لگا لی جائے اور ذہنی طور پر اس کی نفی کی جائے تو بہت جلد شفاء حاصل ہو جاتی ہے۔ نہ صرف جلد شفاء حاصل ہو جاتی ہے بلکہ پیچیدہ و لا علاج امراض سے نجات بھی ممکن ہے۔
چونکہ بیماریوں کا روحانی پہلو اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ اس لئے ہم تفصیل میں جائے بغیر ایک ایسا عمومی پروگرام درج کر رہے ہیں جس کے ذریعے امراض میں قوت شفاء کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ جس قدر ذخیرہ زیادہ ہو گا اور مریض کی قوت یقین ارتکاز حاصل کرے گی، وہ شفاء کے قریب ہوتا جائے گا۔
رات کو جلد سو جائیں اور صبح بیدار ہو جائیں۔ بیدار ہو جائیں۔ بیدار ہونے کا وقت نماز فجر سے نصف گھنٹہ قبل ہونا چاہئے۔
با وضو ہو کر سانس کی مشق نمبر 1انجام دیں۔
ذہن کو تمام خیالات سے آزاد کر کے چہل قدمی کریں اور یا حفیظ کا ورد کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت آ جائے۔
نماز فجر کے بعد مراقبہ میں بیٹھ کر یہ تصور کیا جائے کہ صاحب مراقبہ عرش الٰہی کے نیچے بیٹھا ہوا ہے۔ اور عرش سے اسم ’’یا شافی‘‘ کی نورانی شعاعیں اس کے اوپر نازل ہو رہی ہیں۔
دس سے پندرہ منٹ یہ تصور کیا جائے۔
چند ماہ اس مراقبہ پر عمل کرنے سے مریض کی طبیعت صحت کی جانب مائل ہو جاتی ہے اور بالآخر مریض اچھا ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔