Topics
اللہ تعالیٰ کے اسم علیم کو ایک خصوصیت حاصل ہے۔ علیم کے معنی ہیں علم رکھنے والا۔ علیم کی نسبت سے انسان کو تمام علوم منتقل ہوتے ہیں۔ علوم کی بساط اسمائے الٰہیہ کا علم ہے۔ کسی اسم کا سب سے پہلا مظاہرہ تجلی کہلاتا ہے۔ تجلی ایک نقش ہے۔ جو اپنے اندر مکمل معنویت کے ساتھ ساتھ خدوخال اور حرکت رکھتی ہے۔ تمام اسماء یا صفات کی تجلیاں انسان کی روح کے اندر نقش ہیں۔ یہ نقوش ایک طرح کا ریکارڈ ہے۔ کسی مائیکروفلم کی مانند انسان کی روح میں اسماء کے تمام نقوش موجود ہیں۔
اگر انسان اسم علیم کی نسبت کو بیدار کر لے تو وہ تمام اسماء کی تجلیات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ نسبت ایک یادداشت ہے۔ اگر کوئی شخص مراقبہ کے ذریعے اس یادداشت کو پڑھنے کی کوشش کرے تو ادراک، درود یا شہود میں پڑھ سکتا ہے۔
انبیاء اور اولیاء نے اس یادداشت کو جس طرز میں پڑھا ہے۔ اس کو ’’طرز تفہیم‘‘ کہتے ہیں۔ طرز تفہیم کو سیر اور فتح بھی کہا جاتا ہے۔ تفہیم کے معانی ہیں کسی چیز کی فہم بیدار کرنا یا فہم حاصل کرنا۔ چنانچہ تفہیم کے مراقبے سے اسمائے صفات کا علم اور وہ فارمولے منکشف ہوتے ہیں۔ جن سے کائنات وجود میں آئی ہے۔
تفہیم کا مراقبہ نصف شب گزرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ انسان خالی الذہن ہو کر اسم علیم کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اسے اللہ کے اسم علیم کی نسبت حاصل ہے۔
تفہیم کے پروگرام میں مراقبہ کے ساتھ ساتھ بیداری کا وقفہ بڑھانا لازمی ہے۔ طرز تفہیم میں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ، دو گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی گھنٹے سونے کی اجازت ہے۔ مسلسل بیدار رہنے سے اسم علیم اپنی پوری توانائی سے متحرک ہو جاتا ہے۔ مراقبے میں اول اول آنکھیں بند کر کے مشاہدہ ہوتا ہے اور پھر آنکھیں کھول کر بھی نگاہ کام کرتی ہے۔ جب بند آنکھوں کے سامنے نقش و نگار آتے ہیں تو اس حالت کو ورود کہا جاتا ہے اور جب کھلی آنکھوں سے مشاہدہ ہوتا ہے تو اس کو شہود کہتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔