Topics
بعض لوگوں کی باطنی سماعت باطنی نگاہ سے پہلے کام کرنے لگتی ہے۔ سماعت کے حرکت میں آ جانے سے آدمی کو ورائے صوت آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پہلے پہل خیالات آواز کی صورت میں آتے ہیں۔ پھر فضا میں ریکارڈ شدہ مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بالآخر آدمی کے شعور میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ جدھر اس کی توجہ جاتی ہے اس سمت کے مخفی معاملات اور مستقبل کے حالات آواز کے ذریعے سماعت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب بار بار یہ عمل ہوتا ہے تو آواز کے ساتھ ساتھ نگاہ بھی کام کرنے لگتی ہے اور تصویری خدوخال نگاہ کے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو کشف کہتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں کشف ارادے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یکایک خیال کے ذریعے آواز کے وسیلے سے یا تصویری منظر کی معرفت کوئی بات ذہن میں آ جاتی ہے اور پھر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
مثال:
آپ گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اچانک ذہن میں کسی دوست کا خیال آنے لگتا ہے اور کچھ دیر بعد وہ دوست آ جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آواز کے ذریعے یہ اطلاع ذہن میں وارد ہوتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دوست کی آمد کا منظر نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
کشفی صلاحیت جب ترقی کے مراحل طے کر کے شہود بنتی ہے تو ارادے کے ساتھ عمل ہونے لگتا ہے اور آدمی کسی بات یا کسی واقعے کو ارادے کے ساتھ معلوم کر سکتا ہے۔
کشف کی کیفیت میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ظاہری اور باطنی حواس ایک ساتھ متحرک رہتے ہیں۔ طالب علم کے ذہن میں اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بیک وقت مادی اور روحانی دنیا کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کیفیت کے وارد ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ صاحب مراقبہ کسی جگہ بیٹھ کر آنکھیں بند کرے۔ البتہ یہ کیفیت اختیاری نہیں ہوتی۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، اچانک طاری ہو جاتی ہے اور از خود ختم ہو جاتی ہے۔ یہ حالت دن میں کئی بار بھی وارد ہو سکتی ہے اور بسا اوقات ہفتوں میں ایک مرتبہ بھی طاری نہیں ہوتی۔ اس کیفیت کا نام ’’الہام‘‘ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔