Topics

ارتکاز توجہ

انسان کی مادی زندگی میں بے شمار صلاحیتیں کام کرتی ہیں۔ یہ سب شعوری صلاحیتیں ہیں۔ مثلاً محسوس کرنا، سننا، سونگھنا، دیکھنا، چکھنا، بولنا، چھونا، پکڑنا، چلنا، سونا اور بیدار ہونا وغیرہ۔ اس ضمن میں بہت سے علوم و فنون بھی آ جاتے ہیں مثلاً مصوری، کتابت، طباعت، تکنیکی علوم، موسیقی، ادب، شعر و شاعری، تاریخ، سائنس اور دھات سازی وغیرہ۔

جب کوئی شخص کسی صلاحیت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس صلاحیت سے ناواقف ہوتا ہے لیکن جب وہ صلاحیت سے استفادہ کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ذوق و شوق اور استعداد کے مطابق اس کے اندر صلاحیت بیدار اور متحرک ہو جاتی ہے۔

صلاحیت کو متحرک کرنے میں توجہ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ایک شخص کسی صلاحیت کو بیدار کرنے کی طرف متوجہ نہ ہو تو وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ توجہ ارادی ہو یا غیر ارادی اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔ کسی علم یا کسی صلاحیت کو حاصل کرنے کے لئے جو کوشش اور مشق کی جاتی ہے فی الواقع  اس کا کام بھی توجہ کو اپنے ہدف پر قائم رکھنا ہے۔

توجہ کے اصول کا اطلاق روحانی صلاحیتوں پر بھی ہوتا ہے۔ چونکہ ہم روحانی صلاحیتوں سے ناواقف ہیں اس لئے اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اور جب تک کوئی شخص اپنی روحانی قوتوں کو بیدار کرنے کے لئے اندرونی تحریکات کی طرف ذہن نہ لگائے اس کی روحانی صلاحیتیں حرکت میں نہیں آتیں۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب تک ذہنی یکسوئی کے ساتھ کام نہ کیا جائے صحیح نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ چاہے وہ دنیاوی کام ہو یا دینی اور روحانی علوم کا حصول ہو۔ علم کی تحصیل کے لئے ایسا ماحول ضروری ہے جس میں ذہنی انتشار کم سے کم ہو۔ جب ہم کامل توجہ کے ساتھ تحصیل علم میں مصروف ہوتے ہیں تو اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔ اگر ایسے حالات کا سامنا ہو جن سے ذہن بار بار بھٹکتا رہے تو صلاحیت ہونے کے باوجود بحسن و خوبی علوم کی تکمیل نہیں ہوتی۔

ارتکاز توجہ ذہن کو ایک مرکز پر لانے کا نام ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ دیر تک توجہ ایک نقطہ پر یا ایک خیال پر قائم رہے۔ ارتکاز توجہ کے ذریعے ذہن کے اندر کی بکھری ہوئی قوتیں جمع ہو کر باہر آ جاتی ہیں۔ روح کے لاشمار عکس، ان گنت قوتیں اس لئے خوابیدہ رہتی ہیں کہ ارتکاز توجہ کی طاقت ماورائی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں استعمال نہیں ہوتی۔

جذبات، خیالات اور تقاضوں کے زیر اثر ذہن ایک حالت سے دوسری حالت اور ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ وہ کسی ایک چیز پر ٹھہرتا نہیں ہے۔ خیالات کی یلغار سے انسان کو ان مقامات کا ادراک نہیں ہوتا، جو اس کی اصل ہیں۔

مثال:

ریڈیو اسٹیشن سے نشریات لہروں کے ذریعے فضا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ ان لہروں کی مخصوص فریکونسی ہوتی ہے۔ مختلف جگہوں پر ریڈیو سیٹ جو دراصل ریسیور ہیں، ان لہروں کو وصول کرتے ہیں، وصول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ریڈیو سرکٹ کی فریکونسی وہی ہو جو نشریاتی لہروں کی ہے۔ جب دونوں فریکونسی یکساں ہو جاتی ہیں تو ریسیور آواز کو پکڑ لیتا ہے۔

دنیا کے مختلف اسٹیشن اپنے پروگرام الگ الگ فریکونسی پر نشر کرتے ہیں۔ ہم جس اسٹیشن کی نشریات سننا چاہتے ہیں۔ اس کی فریکونسی کو سیٹ کر کے سن لیتے ہیں۔ اگر فریکونسی میں یکسانیت نہ ہو تو آواز موصول نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر درمیان میں رکاوٹیں یا مزاحمت ہو تو بھی آواز صاف سنائی نہیں دیتی۔

ٹی وی میں آواز کے ساتھ تصویر بھی نشر ہوتی ہے۔ مختلف چینل پر ہم نشریات کو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ اسکرین پر تصویری صورت میں دیکھتے بھی ہیں۔

آدمی کا شعور دراصل ریسیور ہے۔ ذہن کی انتہائی گہرائی میں موجود مرکز یا منبع کی اطلاعات مختلف صورتوں میں شعور کی اسکرین پر نشر ہوتی ہیں۔ بعض اطلاعات مناظر کی شکل میں ڈسپلے ہوتی ہیں، کچھ تصور کی ہیئت میں اور بعض خیال کی نوعیت میں سامنے آتی ہیں، دیگر آواز کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔

یہ بات ہم سب کے تجربے میں ہے کہ خیالات ہمارے اختیار کے بغیر ذہن میں وارد ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب ذہن میں کوئی خیال نہ ہو۔ بھوک پیاس کا تقاضہ بھی خیال ہے۔ سونے جاگنے کا رجحان بھی خیال ہے۔ خوشی، غم اور دیگر جذبات بھی خیالات ہیں۔ نہ صرف خیالات و تصورات بلکہ سماعت، بصارت، شامہ اور لمس بھی اطلاع کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ ہماری پوری زندگی خیالات کے گرد گھوم رہی ہے اور جب دماغ میں خیالات کی تشکیل کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو جسم پر موت وارد ہو جاتی ہے۔

قانون:

خیالات میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو وہ مظہر کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر زندگی خیالات سے الگ کوئی چیز ہوتی تو ہم خیالات سے کبھی متاثر نہیں ہوتے۔ خوشی کا خیال آتا ہے تو ہمارے اندر فرحت و طمانیت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دہشت ناک خیال آتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ذہن میں وسوسے آتے ہیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ طبی اعتبار سے بھی خیالات کے اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ السر، معدے کے امراض، بلڈ پریشر، خفقان، ٹی بی وغیرہ جیسے امراض خیالات کی پیچیدگی سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ذہنی پریشانی لاحق ہو تو بھوک اڑ جاتی ہے۔ حادثے سے متعلق خیال آتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے یا دل ڈوبنے لگتا ہے۔

اسی طرح جب تک ہمارے شعور میں دفتر جانے کا خیال وارد نہ ہو ہم دفتر کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتے۔ کوئی شخص مکان تعمیر کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں یہ خیال وارد ہوتا ہے کہ مجھے مکان بنانا چاہئے۔ اس خیال میں جب حرکت پیدا ہوتی ہے تو وہ کوشش شروع کرتا ہے۔ سرمایہ اکٹھا کرتا ہے، ان لوگوں سے رجوع کرتا ہے جو مکان بنانے کا علم رکھتے ہیں۔ علم تعمیر کو دیکھا جائے تو وہ بھی خیال کی صورت میں انسانی ذہن میں محفوظ ہے۔ چنانچہ جب خیال اور عمل کی قوتیں ملتی ہیں تو مکان کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے اور وہ مکان جو خیال کی صورت میں موجود تھا عمارت بن کر سامنے آ جاتا ہے۔

الہامی کتابیں بتاتی ہیں کہ خیالات کا ایک منبع ہے۔ ذہن کی گہرائی میں موجود نقطۂ ذات، منبع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سورس سے لاشمار اطلاعات (خیالات) ہر لمحہ اور ہر آن نشر ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن شعوری ریسیور تک پہنچنے والی اطلاعات نہ صرف بہت کم ہوتی ہیں بلکہ ان میں محدودیت داخل ہو جاتی ہے۔ یہی اطلاعات اس کا علم و حافظہ بن جاتی ہیں اور انہی کو ہم شعور کہتے ہیں۔ زیادہ اور وسیع اطلاعات کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے اندر ذہنی یکسوئی کا ہونا ضروری ہے۔ جب ہماری فکر یکسوئی کے ساتھ اپنے نقطہ ذات یا منبع اطلاعات کی طرف صعود کرتی ہے تو درجہ بدرجہ اسے ایسی اطلاعات کا مشاہدہ ہوتا ہے جو عام طور پر حواس کی گرفت میں نہیں آتیں۔

نشر ہونے والی اطلاعات کی آخری محدودیت ہی دراصل شعورہے۔ زیادہ اور وسیع اطلاعات حاصل کرنے کے لئے لاشعور کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ طبعی یا سائنسی علوم میں کوئی فارمولا یا ایجاد یا انکشاف ایک نئی اطلاع ہوتی ہے۔ سائنسدان یا موجد جب تک لاشعور میں داخل نہ ہو تو اسے کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ وہ دنوں، مہینوں، سالوں کسی ایک نکتے پر غور کرتا ہے۔ یہ غور و فکر اسے شعور کے پس پردہ لاشعور میں دھکیل دیتا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی ایجاد مظہر بن جاتی ہے۔

پہلے موجد کے ذہن میں کسی ایجاد سے متعلق کوئی خیال آتا ہے اور اسکا ذہن اس خیال میں مرکوز ہو جاتا ہے۔ جوں جوں ذہن خیال کی گہرائی میں سفر کرتا ہے اسی مناسبت سے خیال میں وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے اور خیال کے اندرنقش و نگار کی داغ بیل پڑ جاتی ہے۔ نتیجے میں وہ چیز مظہر بن کر سامنے آجاتی ہے مثلاً انسان کے ذہن میں پرندے کو اڑتا دیکھ کر یہ خیال آیا کہ اسے بھی فضا میں پرواز کرنا چاہئے۔ فضا میں پرواز کا تجسس برابر اس کی راہنمائی کرتا رہا۔ ایک نسل ختم ہوئی تو اس نے اپنا شعوری ورثہ دوسری نسل کو منتقل کر دیا۔ انسان نے پہلے پہل پرندے کے پر جوڑ کر بازو پر باندھے اور اڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ ناکامی سے انسان مایوس نہیں ہوا۔ بلکہ پرواز کے خیال کو عملی جامعہ پہنانے کی مسلسل کوشش کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ پرواز کے قوانین ذہن میں منکشف ہونے لگے۔ ہوا کا دباؤ اور حرکات کا علم اس پر ظاہر ہو گیا اور وہ ایسی مشین بنانے میں کامیاب ہو گیا جو فضا میں پرواز کرتی ہے۔

علیٰ ہذا القیاس دنیا کے تمام علوم و ایجادات کا ایک ہی قانون ہے۔ وہ یہ کہ جب ذہن تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کسی ایک بات کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس کی تفصیلات ذہن پر منکشف ہونے لگتی ہیں۔ جب فکر انسانی خارجی عوامل میں سفر کرتی ہے تو خارجی علوم کا انکشاف ہوتا ہے اور جب داخل میں سفر کرتی ہے تو داخل کے علوم و انکشافات تجربے میں آتے ہیں۔

ایک بچے کا شعور بالغ شخص کے شعور سے الگ ہوتا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے ماحول کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ اس کی بصارت کسی شئے پر ٹھہرتی ہے اور نہ سماعت ماحول کی آوازوں میں معانی پہنا سکتی ہے۔ وہ بول سکتا ہے اور نہ ہی فاصلے اور وقت کے احساسات اس کے اندر کارفرما ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ بچہ وہ سب کچھ سیکھ جاتا ہے جو اس کے ماحول میں رائج ہے۔ حتیٰ کہ سوچنے سمجھنے کی تمام طرزیں اسے ماحول میں من و عن منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس طرز انتقال میں بچے کا ارادہ بھی کام کرتا ہے۔ لیکن ایک بڑا حصہ وہ علم ہے جو ماحول کے افراد سے غیر ارادی طور پر اس کے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔ بچہ مادری زبان بغیر کسی تعلیم کے سمجھنے اور بولنے لگتا ہے۔ اسی طرح وہ ماحول میں موجود ادشیاء کے معانی اور ان کا استعمال بھی سمجھنے لگتا ہے۔ انتہا یہ کہ ایک بچہ کم و بیش وہی کچھ دیکھنے، سمجھنے اور محسوس کرنے لگتا ہے جو اس کے بزرگوں کا علم اور شعور ہے۔ 

جوانی کو پہنچتے پہنچتے اس کے شعوری ذخیرے میں وہ تمام باتیں جمع ہو جاتی ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ انہی طرزوں میں زندگی گزارتا ہے جو اس کے معاشرے میں رائج ہیں۔

شعور کو ایک آئینے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس پر روشنیوں کا عکس پڑتا ہے اور شعور اپنے علم و دلچسپی کی بدولت مخصوص روشنیوں کو جذب کر لیتا ہے۔ جن روشنیوں کو شعور جذب کرتا ہے وہ شعور کے پردے پر رک جاتی ہیں۔ آدمی انہیں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ لیکن جو روشنیاں شعور کے پردے میں سے گزر جاتی ہیں آدمی انہیں نہیں دیکھتا۔

مثال:

اگر ایک صاف شفاف ٹرانسپیرنٹ شیشہ نگاہ کے سامنے ہو اور آدمی کو شیشے کی موجودگی کا علم نہ ہو تو وہ اسے نہیں دیکھ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روشنی شیشے میں سے گزر جاتی ہے اور انعکاس کا عمل واقع نہیں ہوتا اور جب انعکاس نہیں ہوتا تو آنکھ اسے نہیں دیکھتی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے سامنے شیشے کا دروازہ ہے لیکن آدمی گزرتا چلا جاتا ہے اور شیشہ سے ٹکرا جاتا ہے۔ شیشے سے ٹکرانے کے بعد اسے نظر آتا ہے کہ سامنے شیشہ ہے۔

شعور کے اندر تخلیقی طور پر یہ صلاحیت موجود ہے کہ جب وہ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ روشنیوں کو جذب کرنے لگتا ہے اور وہ روشنیاں جو ابھی تک نامعلوم تھیں شعور کی گرفت میں آ جاتی ہیں۔ اسی گرفت کو ہم علم، تجربہ، مشاہدہ وغیرہ کہتے ہیں۔

علم روحانیت کے مطابق غیب میں لامتناہی روشنیاں موجود ہیں۔ انہی روشنیوں میں کہکشانی نظام، سماوی مخلوق، خلاء میں آبادیاں اور روحانی علوم و اسرار شامل ہیں۔ جب آدمی اپنے اندر میں متوجہ ہوتا ہے تو شعور کے آئینہ پر باطنی اطلاعات تصویریں بننے لگتی ہیں۔ اور غیبی نقوش شعور کی گرفت میں آنے لگتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ غیبی نقوش کو اس طرح سمجھنے اور محسوس کرنے لگتا ہے جیسے ایک بچہ بتدریج ماحول کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

باطنی حواس کو بیدار کرنے میں ارادے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مراقبہ میں بند آنکھوں کے سامنے اندھیرے کی سیاہ چادر کے پس پردہ یہ بات محفوظ ہوتی ہے کہ مظاہرات موجود ہیں۔ یہ علم اور یقین باطنی نگاہ کو متحرک کر دیتا ہے۔ پہلے مرحلے میں ارادے میں اضمحلال پیدا ہوتا ہے لیکن متواتر مشق کے نتیجے میں ارادہ حرکت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور مراقبہ کرنے والا باطنی دنیا کو بند آنکھوں سے اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح کھلی آنکھوں سے مادی خدوخال نظر آتے ہیں۔

اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ یقین ہر کام میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ہمیں اس بات کا یقین نہ ہو کہ کراچی کوئی شہر ہے تو ہم کراچی نہیں جا سکتے۔ اگر یہ بات ہمارے یقین میں نہ ہو کہ کیمیا کوئی علم ہے تو ہم علم کیمیا نہیں سیکھ سکتے۔



Muraqaba

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔