Topics
غیب مظاہرسے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔غیب کو سمجھنا بہت ضروری ہے مذہب یا دین جس چیز کوکہتے ہیں وہ درا صل غیب کی نشاندہی ہے مذہب میں مظا ہر کا تذکرہ ضرور آتا ہے ۔لیکن اس کو کسی بھی دور میں اولیت حاصل نہیں ہو ئی ،اس لئے کہ ما دی ہر چیز فنا کے راستے پر گا مزن ہے اور جبکہ خود راستہ بھی فا نی ہے ایک خدا کا پر ستا ر جس طر ح غیب پر ایمان رکھتا ہے بالکل اسی طر ح ایک ما دیت کا پر ستا د ما دیت کی دنیا پر یقین رکھتا ہے ۔نہ خدا پر ست کو غیب کی دنیا پرایمان رکھے بغیر چا رہ ہے اور نہ ما دیت پر ست کو ما دے پر ایمان لا ئے بغیر مفر ہے ۔دو نوں اپنی ایک طر ز رکھتے ہیں ۔اور ان میں یہ چیز اس طرح مشترک ہے کہ اس طر ز پر ان کا ایمان اور ایقان ہو تا ہے اسی ایمان اور ایقان کو یہ زندگی کہتے ہیں کو ئی زندگی ایمان اور ایقان کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔وہ زندگی خدا پر ست کی زندگی ہو یا ما دہ پر ست کی ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔