Topics

قلندر شعور

زندگی گزارنے کی ایک طر ز یہ ہے کہ آدم زاد ہمہ وقت ،ہر آن اور ہر لمحہ پا بند حواس کے ساتھ زندگی گزارتا ہے ۔زندگی گزارنے کی دو سری طر ز یہ ہے کہ آدم زاد پابند حواس کے ساتھ بھی آزاد زندگی گزارتا ہے ۔حزن اور ملال کے تاثرات اسے متا ثر نہیں کرتے ۔زمین کے اوپر وسائل کی چکا چو ند اس کی آنکھوں کو خیرہ نہیں کر تی ۔اس لئے کہ زمین سے دور بہت دور اعلیٰ زمین ’’جنت ‘‘ اس کی نگا ہوں کے سامنے ہو تی ہے جس طرح مادیت میں قید وہ یہاں رو ٹی کھا تا ہے اسی طر ح ما دیت سے آزاد ہو کر جنت کے با غات سے انگور کے خوشے حاصل کر نا ا س کے لئے آسان ہے ۔جب کو ئی شخص خود شنا سی میں مکمل ہو جا تا ہے تو اس کے اوپر زندگی کی نئی راہ نئی طر ز اور نیا اسلوب منکشف ہو تا ہے ۔ایسے شخص کو قلندر شعور کا حامل مرد کہا جا تا ہے ۔


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔