Topics
خالق کا ئنات نے اس دنیا کو محبت ،خوشی ،مسرت و شادما نی اور ایثار کا گہوارہ بنایا تھا اور آج بھی دنیا کی ہر شئے دیدہ بینا کو مسرت اور خوشی مہیا کر تی ہے ۔خوبصورت خوبصورت رنگ بر نگ چڑیا ں ،فطرت کے شاہد منا ظر ،پا نی کا اتار چڑھا ؤ ،پہا ڑوں کی بلندی ،آسمانوں کی رفعت ،پھولوں کا حسن ،درختوں کی قطاریں ،تا روں بھر ی رات ،روشن رو شن دن ،ما ں کی آنکھوں میں محبت کی چمک ،بچے کا مچلنا اور کلکا ری بھر نا ،بہن کی پا کیزگی ،بھا ئی کا اخلاص،بیٹی کا تقدس ،باپ کی شفقت یہ سب بلا شبہ نو ع انسانی کے لئے خوشی اور شا دمانی کا سامان ہیں ۔ایک ماں کی طر ح زمین بھی یہی چا ہتی ہے کہ اس کی اولاد پُر مسرت زندگی گزارے۔زمین کو دوزخ نہ بنا ڈالے ۔اس کے اوپر پھولوں کی بجا ئے انگا روں کی کا شت نہ کی جا ئے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔