Topics

ترقی یافتہ دور

آج کی تر قی یا فتہ دنیا میں بے شمار ایجا دات  اور لا متنا ہی آرام و آسائش کے با وجود ہر شخص بے سکون ،پر یشان اور عدم تحفظ کا شکا ر ہے ۔سائنس کیوں کہMATTER پر یقین رکھتی ہے ۔اور ما دہ یا MATTER عارضی اور فکشن ہے اس لئے سائنس کی ہر تر قی ،ہر ایجا د اور آرام وّ آسائش کے تمام وسائل عارضی اور فنا ہو جا نے والے ہیں ۔جس شئے کی بنیاد ہی ٹوٹ پھو ٹ اور فنا ہو اس سے کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ مذہب اور لا مذہب میں یہی بنیا دی فر ق ہے کہ لا مذہبیت انسان کے اندر شکوک و شبہات ،وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو جنم دیتی ہے ۔ جبکہ مذہب تمام احساسات ،خیالات ، تصورات اور زندگی کے اعمال و حر کات کو قائم بالذات اور مستقل ہستی سے وابستہ کر دیتا ہے ۔


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔