Topics
اللہ کے مشن (دین ) کو پھیلا نا ہر امتی پر فر ض ہے ۔اس فر ض کی ادا ئیگی کے لئے پہلے خود اپنا عرفان حاصل کر یں ۔خود آگا ہی اور اپنی ذات کا عرفان ایسی رو حانی کا میابی ہے جس کے ذریعے انسان اپنی دعوت کا سچا نمو نہ بن جا تا ہے ۔جو کچھ کہتا ہے عمل و کردار سے اس کا اظہار ہو تا ہے ۔جب وہ دینی اور رُوحا نی مشن کو عام کر نے کے لئے لو گوں کو دعوت دیتا ہے تو پہلے خود اس کی مثال قائم کر تا ہے ۔ خدا کو یہ بات انتہا ئی نا گوار گزرتی ہے کہ دو سروں کو نصیحت کرنے والے خود بے عمل ہو ں ۔نبی بر حق (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بے عمل دعوت دینے و الوں کو انتہا ئی ہو لناک عذا ب سے ڈرایا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔