Topics
مو جو دہ سائنس تلاش اور جستجو کے را ستے پر چل کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پو ری کا ئنات ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے ۔یہ انکشاف نیا نہیں ہے ہمارے اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ آدمی کی تصویر مختلف النوّ ع خیالات کے رنگوں سے مر کب ہے خیال ہمیں مسرت آگیں زندگی سے ہم کنار کر تا ہے اور یہی خیال ہمیں غم ناک زندگی سے آشنا کر دیتا ہے ۔کہا جا تا ہے کہ سائنس تر قی کے عروج پر پہنچ گئی ہے ۔لیکن آج کے سائنس دان وہی کہہ رہے ہیں جو ہزاروں سال پہلے رو حانیت کے علمبردار کہہ چکے ہیں اور جس کا پر چار آج بھی ان کے پیرو کار حضرات کا مشن ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کا قیام ما دے پر نہیں لہروں پر ہے ۔اور لہریں خیالات کا جامہ پہن کر ہر شئے کا وجود بن رہی ہیں ۔مادے سے بنی ہو ئی تصویروں میں ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے وہ فر یب نظر کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔