Topics

آواز سرو ش

کا ئنات کیا ہے ؟۔۔۔ایک نقطہ ہے ۔۔۔نقطہ ایک نور ہے اور نور رو شنی ہے ۔

ہر لفظ تجلی کا عکس ہے ۔یہ عکس جب نور اور رو شنی میں منتقل ہو تا ہے تو جسم مثالی بن جا تا ہے ۔جسم مثالی (Aura)کا مظا ہرہ گو شت پو ست کا جسم ہے۔

ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عما رت گو شت اور پٹھوں پر کھڑی ہے ۔کھال اس عمارت کے اوپر پلا سٹر اور رنگ و روغن ہے ۔وریدوں ،شریانوں ،اعصا ب ،ہڈیوں، گو شت اور پو ست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

 حواس کی تعداد پانچ بتا ئی جا تی ہے جب کہ ایک انسان کے اندر سا ڑھے گیا رہ ہزار حواس کام کر تے ہیں ۔

آدم زاد کے دو رو پ ہیں ۔ایک ظا ہر رو پ، دو سرا با طن رو پ ۔ با طن رُ خ میں رُوپ کا عمل دخل ہے رُوح کا ئنات کے ہر ذرے میں مستقل گردش کر تی رہتی ہے کا ئنات میں جتنی تخلیقات ہیں اور کا ئنات میں جتنے عنا صر ہیں جتنے ذرات ہیں ہر ایک ذرہ (Cell )رُوح کی تحریکات پر زندہ ہے ۔

رُو ح جب تک اپنا رشتہ جوڑے رہتی ہے زندگی مسلسل حر کت ہے اور جب رُو ح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو حرکت معدوم ہو جا تی ہے ۔

رُوح کے لا کھوں ،کروڑوں روپ ہیں اور ہررو پ بہروپ ہے ۔آدم زاد ایک طر ف رُوح ہے تو دو سری طر ف رُو ح کا بہر وپ ہے ۔روپ بہرو پ کی یہ کہا نی ازل میں شروع ہو ئی اور ابد تک قائم رہے گی ۔یہ کہا نی دراصل ایک ڈرا مہ ہے ۔مختلف رو پ (افراد )آتے ہیں اور اسٹیج پر اپنے کر دار (بہروپ)کا مظاہرہ کر کے چلے جا تے ہیں۔

روپ بہرو پ کا یہ مظاہرہ ہی ماضی،حال اور مستقبل ہے ۔میں چو نسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ،جوانی اور بڑھا پے کا بہروپ ہوں ۔

کہیں کی اینٹ ،کہیں کا روڑا

بھان متی نے کنبہ جوڑا 


میں نے چو نسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سو رج دیکھے ہیں ۔ہر نیا سورج میرے بہرو پ کا شا ہد ہے تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ،حال اور مستقبل کی تعمیر کر تے رہے ۔۔۔میں اب تھک گیا ہو ں ۔۔۔لیکن میرے ساتھ چپکے ہو ئے ما ضی،حال اور مستقبل میرے روپ کےمزید بہروپ بنانے پر مستعد نظر آتے ہیں ۔

روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی ۔میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کا سۂ گدائی میں جمع کر تا رہا اور اب جب کہ کا سۂ گدائی لبریز ہو گیا ہے۔میں آپ کی خدمت میں رو پ بہرو پ کی یہ کہا نی پیش کر رہا ہوں ۔



خواجہ شمس الدین عظیمی

یکم دسمبر ۱۹۹۰ء 

Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔