Topics

نباتات و جمادات

قلندر بابااولیا ء ؒ فر ما تے ہیں :۔

ساری کا ئنات میں ایک ہی لا شعور کار فر ما ہے ۔اس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دو سری لہر کے معنی سمجھتی ہے چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دو کنا روں پر واقع ہوں ۔غیب و شہود کی فراست اور معنویت کا ئنات کی رگ جان ہے ۔ہم اس رگ جاں میں جو خود بھی  ہماری رگ جاں  بھی ہے تفکر اور توجہ کر کے اپنے سیّارے اور دو سرے سیاروں کے آثار و احوا ل کا انکشاف کر سکتے ہیں ۔انسانوں اور حیوانوں کے تصورات جنات اور فر شتوں کی حر کات و سکنات ،نباتات اور جمادات کی اندرونی تحریکات معلوم کر سکتے ہیں ۔ مسلسل توجہ دینے سے ذہن کا ئناتی لا شعو ر میں تحلیل ہو جا تا ہے اور ہمارا سرا پا کا معین پرت انا کی گر فت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطا بق ہر چیز دیکھتا ،سمجھتا اور شعور میں محفوظ کر دیتا ہے ۔


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔