Topics
یہ زمانہ جس میں ہم اور آپ یکساں طو ر پر کش مکش اور ابتلا کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جہاں ہر طر ف مادیت کی یلغار ہے ۔بتدریج اپنے انجام کی طر ف بڑھ رہا ہے ۔ما دیت کی تیز رو شنی میں بصارت کی خیر گی اور دل سوز جلن ہے مگر رُوح کی لطا فت اور بصیرت کی نمی نہیں ہے جس طر ح ما دیت کو قرار اور دوام نہیں ہے اسی طر ح ما دیت کی بنیاد پرجو عمارت تعمیر ہو گی وہ دیر یا سویر ضرور زمیں بوس ہو جا ئے گی ۔یہ نظام قدرت ہے اور کو ئی اس کا توڑ نہیں ۔
مسلمان کے اوپر فر ض ہے کہ وہ دنیا وی فنون و کمالات حاصل کر کے خود کو بلند تر ین مقامات پر فا ئز کر نے کے لئے کو ئی وقیقہ نہ اٹھا رکھیں مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی فرا موش نہ کی جا ئے کہ یہ معاشی اور ما دی تر قی اور خوشحالی ہی زندگی کا مقصد نہیں ہے ۔بصارت چشم سے زیادہ بصیرت قلب پر فکر ی اور عملی توجہ پر مر تکز رہنی چا ہئے بقول علا مہ اقبال
دلِ بینا بھی کر خُدا سے طلب
آنکھ کا نُور دِل کا نُور نہیں
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔