Topics

فرشتے

۱۴ اگست کا سورج جوں ہی اُفق سے نمودار ہوا ۔ان کی شعا عوں میں ایک پیغام تھا کہ ایک قوم دو سرے قوم سے آزادی حاصل کر کے اپنی نسل کے لئے ایک فلا حی مملکت قائم کر ے ۔ بھو نکی اور ننگی قوم پر قدرت نے اپنے خزانے کھول دئیے تا کہ قوم وسائل کی کمی کا شکوہ نہ کر ے اور قوم کے فلا حی کا موں میں کو ئی رخنہ در انداز نہ ہو ۔ ایک نسل ختم ہو گئی ایک نسل جوان ہو کر بڑھا پے کی طر ف گا مزن ہے اور ایک نسل جوان ہو رہی ہے ۔ تینوں نسلوں کو فر شتے تر غیبی پرو گرامINSPIRE کر تے رہے مگرجیسے جیسے قدرت کا انعام عام ہو تا رہا قوم کے اندر زر اور زمین کی ہو س بڑھتی گئی اور یہ حر ص و ہو س قوم کے جسم کے لئے نا سور بن گئی قوموں کے عروج و زوال کی تا ریخ ہمیں یہ بتا تی ہے کہ دھر تی پر وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ما ضی کو یا د رکھتی ہیں اور حال میں کئے ہو ئے اعمال کا محا سبہ کر تی ہیں۔ 


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔