Topics
انسانوں کے درمیان ابتد ائے آفر ینش سے بات کر نے کا طر یقہ را ئج ہے ۔آوا ز کی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جا تے ہیں سننے والوں کو مطلع کر تی ہیں یہ طر یقہ اس ہی تبا دلہ کی نقل ہے ۔جو انا کی لہروں کے درمیان ہو تا ہے دیکھا گیا ہے کہ گو نگا آدمی اپنے ہو نٹوں کی حفیف جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جا تے ہیں یہ طر یقہ بھی پہلے طر یقے کا عکس ہے ۔جا نور آواز کے بغیر ایک دو سرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں ۔یہاں بھی انا کی لہریں کام کر تی ہیں ۔درخت آپس میں گفتگو کر تے ہیں اور یہ گفتگو آمنے سامنے کے درختوں میں نہیں ہو تی بلکہ دور دراز کے ایسے درختوں میں بھی ہو تی ہے جو ہزاروں میل کے فا صلے پر واقع ہیں ۔یہی قانون جمادا ت میں بھی را ئج ہے ۔کنکروں ،پتھروں ،مٹی کے ذروں میں من و عن اسی طر ح تبا دلہ خیال ہو تا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔