Topics

آنکھ

جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہو نا یا چیزوں کا عدم میں چلے جا نا اللہ کی طر ف سے ہے اس وقت تک ذہن کی مر کز یت قائم رہتی ہے اور جب یہ یقین غیر مستحکم ہو کر بکھر جا تا ہے تو آدمی ایسے عقیدوں اور وسوسوں میں گر فتار ہو جا تا ہے جس کا نتیجہ ذہنی انتشار ہو تاہے ،پر یشانی ہو تی ہے ،غم و خوف ہو تا ہے حا لانکہ دیکھا جا ئے تو یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ انسان کا ہر عمل ،ہر فعل ،ہر حرکت کسی ایسی ہستی کے تا بع ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن با طنی آنکھ اس کا مشاہدہ کر لیتی ہے 

Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔