Topics
ایمان ایک ایسا جو ہر ہے جس کی چا شنی اور حلا وت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے مگر یہ ہلا وت چا شنی اسی بندے کو حاصل ہو تی ہے جو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اللہ کو محبوب رکھتا ہے ۔وہ بندہ جو اللہ سے زیادہ دو سری چیزوں کو عزیز رکھتا ہے ،اللہ کا سچا بندہ نہیں ہے ۔جب ہم محبت کا تذکرہ کر تے ہیں تو محبت ہم سے کچھ تقاضے کر تی ہے اور وہ تقاضہ یہ ہے کہ محبت ہمیشہ قربانی چا ہتی ہے ۔سب جا نتے ہیں کہ محبت ایک ایسی قلبی کیفیت کا نام ہے جو ظا ہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی ۔لیکن انسان کا عمل اس بات کی شہا دت فرا ہم کر تاہے کہ اس کے اندر محبت کا سمندر موجزن ہے یا نہیں ۔ایک آدمی زبانی طور پر اگر اس بات کا دعویٰ کر تا ہے کہ میں اپنے محبوب سے محبت کر تا ہوں لیکن جب ایثار اور قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے قول میں سچا ثابت نہیں ہو تا ۔بلا شبہ اس کی محبت قابل تسلیم نہیں سمجھی جا ئے گی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔