Topics

ورثہ

کہا جا تا ہے کہ انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے کسی نہ کسی عقیدے کا پا بند رہنا ضروری ہے گردوپیش کے حالات اور ماں باپ کی تربیت سے جس قسم کے عقائد بچے کے ذہن میں پر ورش پا جا تے ہیں وہی بچے کا مذہب بن جا تا ہے تمام نظر یات کی بنیاد اسی اصول پر کار فر ما ہے اس کے بغیر تا ثرات واردات اور کیفیات کو عقیدے کے سلسلے میں کو ئی جگہ نہیں ملتی ہمارے تمام فلسفے اور تمام طبعی سائنس اسی کلیہ پر قائم ہے لیکن ہم جب انسان کی ذہنی اور اندرو نی زندگی پر غور کر تے ہیں تو ہمیں ذاتی اور با طنی واردات اور کیفیات میں نمایاں فر ق نظر آتا ہے اور ہم یہ اقرار کر نے پر مجبور ہو جا تے ہیں کہ زندگی کا بہت تھوڑا سا حصہ عقلیت کی گر فت میں آتا ہے جو کچھ ہے سب بچپن میں سُنی ہو ئی دیکھی ہو ئی والدین سے ورثہ میں ملی ہو ئی کیفیات کا ثمر ہے ۔


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔