Topics
قانون قدرت سے انحراف کی ہزاروں سزائیں ہمارے سامنے ہیں ،نئے نئے موذی امراض کی یلغار ہے ۔سب کچھ ہو تے ہو ئے ہر شخص افلاس کے شکنجے میں جکڑا ہو اہے ۔اولاد نا لا ئق ہے یا والدین نا لا ئق قرار دئیے جا رہے ہیں قوم بصار ت اور بصیرت سے محروم ہو رہی ہے ۔دماغی عارضے آج جتنے عام ہیں اتنے کبھی نہ تھے ۔ذرا زور سے دل ڈھرکا اور آدمی لحد میں اتر گیا۔ عدم تحفظ کا عالم یہ ہے کہ پتّہ بھی ہلے تو دل سینے کی دیوار سے با ہرآنا چا ہتا ہے گھر میں میاں بیوی کی توتکار سے نوجوان نسل شا دی کے بندھن کو بو جھ سمجھنے لگی ہے۔ وسائل کے انبارہو نے کے باوجود رو زی تنگ ہو گئی ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔