Topics

مائی صاحبہؒ


مائی صاحبہؒ

 

سروقد، لالہ رخسار، غزال چشم، غنچہ دہن، کتابی چہرہ، صراحی گردن، بال ایسے جیسے چاندی کے تار، مائی صاحبہؒ ہر وقت گھومتی پھرتی رہتی تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ کبھی کسی کے گھر چلی گئیں اور کبھی کسی کے گھر۔ جس کے گھر جاتی تھیں اس کے گھر خیر و برکت ہو جاتی تھی لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ وہ زیادہ دن ان کے گھر مہمان ٹھہریں۔ ایک دن معطر معطر خراماں خراماں مائی صاحبہ تشریف لائیں۔ کمرے میں قدم رکھا تو جھمکاکہ ہوا اور آنکھوں کے سامنے قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے، مائی صاحبہ نے مخمور نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بولیں:

’’بیٹا! تجھے دیکھنے کی تمنا تھی سو پوری ہو گئی۔‘‘

حیرت زدہ آنکھوں اور کھوئے ہوئے دماغ سے میں نے پوچھا کون ہیں آپ اور کہاں سے آئی ہیں؟ آپ کا نام کیا ہے؟

ملکوتی تبسم کے ساتھ گویا ہوئیں میرے دو نام ہیں ایک نام مفروضہ اور فکشن ہے اور دوسرا نام مفروضہ اور فکشن کی الٹ ہے۔ میں نے نام کی تعریف ایسی کبھی نہیں سنی تھی حیرت اور استعجاب سے پوچھا:

’’کیا نام بھی غیر حقیقی ہوتے ہیں؟ نام تو پہچان کا ذریعہ ہے۔‘‘

مائی صاحبہؒ عجیب انداز میں خلاء میں گھورتے ہوئے بولیں:

’’بیٹا تمہارا نام کب رکھا گیا تھا؟‘‘

میں نے مودبانہ جواب دیا۔’’جب میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

ہنستے ہوئے کہا۔’’تم وہی ہو جو پیدا ہوئے تھے؟ کیا تمہارا ایک ایک عضو بدل نہیں گیا؟ کیا تم پنگوڑے سے زمین پر آ کر دندناتے نہیں پھرتے؟ جب تم پیدا ہوئے تو کیا تمہارے ہاتھ اتنے ہی بڑے تھے جتنے اب ہیں؟ اور اپنے قد کاٹھ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
خفت اور ندامت کے ساتھ میں خاموش ہو گیا۔ تجسس نے مجبور کیا تو پھر پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟‘‘

کہنے لگیں۔’’میرے دو وجود ہیں ایک وجود پر ہر لمحہ موت وارد رہتی ہے جس لمحے موت وارد ہوتی ہے اس لمحہ ایک اور وجود تشکیل پاجاتا ہے۔ میرا یہ وجود لمحہ بہ لمحہ موت اور لمحہ بہ لمحہ حیات ہے، میرا دوسرا وجود وہ ہے جس پر لمحات، گھنٹے، دن اور ماہ و سال اثر انداز نہیں ہوتے، نہ تو وہ پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ مرتا ہے۔

مائی صاحبہ کی زبانی اسرار و رموز کی یہ باتیں سن کر ذہن میں خیال آیا کہ یہ کوئی بڑی عالم فاضل عورت ہیں۔ دماغ میں جیسے ہی یہ خیال وارد ہوا مائی صاحبہ بولیں:

’’نہیں بیٹا نہیں۔ میں عالم فاضل نہیں ہوں۔ مجھے تو خط بھی لکھنا نہیں آتا، ہاں میں خواجہ غریب نوازؒ کی داسی ضرور ہوں۔‘‘
’’آپ خواجہ غریب نوازؒ کی داسی ہیں۔ آپ کا قیام کہاں ہے؟‘‘

فرمایا:
’’قیام مقام سے ہوتا ہے، میرے دو مقام ہیں ایک مقام ٹائم اور اسپیس میں بند ہے میں اسی مقام میں خود کو پابند اور مقید محسوس کرتی ہوں، چند میل اگر سفر کرنا پڑے تو وسائل کی محتاجی ہے، میرا دوسرا مقام وہ ہے جہاں میں وسائل کی محتاج نہیں ہوں، وسائل میرے پابند ہیں۔‘‘

قیام اور مقام کی یہ فکر انگیز گفتگو سن کر میری کیفیت ایسی ہو گئی جیسے کسی ساٹھ سالہ کسان کے سامنے ایٹمی فارمولا بیان کیا جا رہا ہو۔ مائی صاحبہؒ نے جب دیکھا کہ میں نروس ہو گیا ہوں تو دو قدم آگے بڑھیں اور شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، ابھی ان کاشفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر ہی تھا کہ بچوں نے شور مچا دیا ۔ دادی آ گئیں۔ دادی آ گئیں۔ دادی نے بھی اپنے معصوم پوتے اور پوتیوں کو کلیجے سے لگا لیا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔

بڑی بیٹی نے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا۔ دادی کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں؟ مائی صاحبہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئیں۔

آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور انہوں نے اپنی آپ بیتی اس طرح بیان کی۔

’’میرا نام جیاتی تھا، عمر ہو گی کچھ چودہ سال۔ ماں باپ نے پھیرے کروا دیئے، ابھی دلہن کے خواب پورے بھی نہ ہوئے تھے کہ پتی روٹھ گیا، سسرال والوں نے مجھے ستی کرنے کے مشورے شروع کر دیئے۔ میرے کانوں میں بھنک پڑ گئی۔ میں گھپ اندھیری رات میں سسرال سے میکے پہنچی۔ ماتا جی نے مجھے سینے سے لگایا، لیکن میرا باپ مذہبی آدمی تھا اس نے اس طرح گھر آنا پسند نہیں کیا۔ جب تین پہر رات ڈھل گئی تو ماں نے مجھے پچھلے دروازے سے باہر کردیا۔ میں دوڑتی رہی دوڑتی رہی یہاں تک کہ افق سے سورج نمودار ہوا۔ درختوں کے ایک جھنڈ میں دن بھر پڑی روتی رہی سسکتی رہی اور اپنے مقدر کو کوستی رہی۔ سورج نے جیسے ہی رات کے پردے میں اپنا چہرہ چھپایا میں منزل کا تعین کئے بغیر پھر دوڑنے لگی۔ لہولہان پیروں سے نحیف و نزار جسم اور خشک حلق کے ساتھ نہیں معلوم کس طرح خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں جا پہنچی۔ ڈر اور خوف کا غلبہ اتناتھا کہ مزار کے اندر جا کر میں نے اندر سے کنڈی لگا لی اور خواجہ صاحب کی لحد سے لپٹ کر لیٹ گئی۔ سکون ملا۔ لگتا تھا کہ میں دو چار سال کی بچی ہوں اور خواجہ غریبؒ کی قبر ماں کی گود ہے۔ ادھر میں سرور کی کیفیت میں سرشار تھی، باہر کہرام مچ گیا، کوئی دیوانی اندر گھس گئی ہے، لوگ چیختے رہے، چلاتے رہے، دروازہ پیٹتے رہے مگر میں سکون کی وادی میں تھی مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بالآخر میں نے دروازہ کھول دیا اور وہاں جھاڑو دینے کی خدمت میں معمور کر دی گئی۔ پاکستان بنا تو اپنی ہی جیسی ایک عورت پر عاشق ہو گئی اور اس خاتون کے ساتھ پاکستان آ گئی۔

چھوٹی بیٹی نے پوچھا دادی اماں ہمارے گھر کا پتا آپ کو کس نے بتایا ہے؟

مائی صاحبہ نے بہت زور کا قہقہ لگایا اور فرمایا:

’’بیٹی! جس بندے کو اپنے اصل مالک کا پتہ مل جاتا ہے اس کے لئے کوئی پتہ، کوئی ٹھکانہ، کوئی مقام ڈھونڈنا مشکل نہیں ہوتا۔‘‘
سبحان اللہ کیا سعید دن تھا کہ پورے دن انوار کی بارش برستی رہی، درودیوار سے روشنیاں پھوٹتی رہیں، ایسا سماں تھا کہ جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رات کو رخصت ہوتے وقت میں نے مائی صاحبہ کی قدم بوسی کی ان کے نرم اور جھاگ سے ملائم ہاتھوں کو چوما۔ آنکھوں سے چھوا اور بے قرار دل کے ساتھ کہا:

’’مائی صاحبہ کوئی نصیحت کریں۔‘‘

مائی صاحبہ ایک دم آسمان کی طرف دیکھنے لگیں اس طرح کہ پلکوں کا ارتعاش رک گیا، ڈھیلوں کی حرکت ساکت ہو گئی، لگتا تھا کہ ذہن و دماغ دونوں کسی نادیدہ نقطے پر مرکوز ہیں۔ ہم سب نے خود اماں کے استغراق اور تجلی سے معمور چہرے کو تکتے رہے۔ ایک بلند آواز گونجی:

’’بیٹا!‘‘
انگشت شہادت کھلی ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوا اور زبان سے یہ الفاظ نکلے۔

’’رب راضی، سب راضی۔‘‘

حکمت و دانائی

* رب راضی سب راضی۔

* وجود لمحہ بہ لمحہ موت اور لمحہ بہ لمحہ حیات ہے۔

* ہر لمحہ، ہر آن موت وارد رہتی ہے۔ جس لمحے موت وارد ہوتی ہے اسی لمحے ایک نیا وجود تشکیل پا جاتا ہے۔

* جس بندے کو اپنے اصل مالک کا پتہ چل جاتا ہے وسائل اس کے پابند ہو جاتے ہیں۔

* مرشد سے طلب کرتے رہنا چاہئے، جب تک بچہ روتا نہیں ماں دودھ نہیں پلاتی۔

* کسی کو دوست کہہ دیا تو دوستی ہر حال میں نبھاؤ۔

* مرشد کا دروازہ مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔

* جس کا مرشد نہیں اس کا اعتبار نہیں۔

* مرشد جو کہے وہ کرو مرشد کی نقل نہ کرو۔

بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید

کہ سالک بے خبر نہ بود زراہ و رسم منزلہا

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔