Topics

بی بی فاطمہ خاتونؒ

لاہور میں مقیم فاطمہ خاتونؒ سلسلہ قادریہ سے منسلک تھیں، عصر کا وقت تھا، بیری کے درخت کی چوٹی پر دھوپ تھی۔ بی بی صاحبہ نے اپنی چادر دھوپ میں ڈال دی اور درخت سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’اے درخت ذرا اپنی ٹہنیاں تو جھکا دے تا کہ میں اپنی چادر سکھا لوں۔‘‘

ٹہنیاں جھک کر نیچے آ گئیں پھر واپس اپنی جگہ چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد حضرت موج دریاؒ وہاں تشریف لائے اور چادر کو درخت کے اوپر پھیلا دیکھ کر پہلے حیران پھر خوش ہوئے۔ بی بی صاحبہ سے دریافت کیا کہ

’’یہ چادر درخت کے اوپر کس طرح پہنچی؟‘‘

بی بی صاحبہ نے فرمایا:

’’میں نے درخت سے کہا کہ شاخیں نیچے کر دے اور میں نے چادر ڈال دی۔ شاخیں اوپر ہوئیں تو چادر بھی اوپر چلی گئی۔‘‘
حضرت موج دریاؒ نے فرمایا:

’’تو پھر اسی طرح چادر اتار لو۔‘‘

بی بی فاطمہ نے درخت سے کہا:

’’اے درخت اپنا سر جھکا دے کہ میں اپنی چادر اتار لوں۔‘‘

شاخیں نیچے آ گئیں اور بی بی فاطمہ نے اپنی چادر اتار لی۔

نیک عورت کے اوصاب بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’دیانت دار عورت اپنے ایمان، سیرت اور اخلاق کے باعث پورے خاندان کے لئے رحمت ہے۔ اس کی ذات سے کوئی ایسی سعید روح وجود میں آ سکتی ہے جو ایک عالم کے لئے مشعل راہ بن جائے، اچھی اور نیک خصلت بیوی مرد کی اصلاح حال کے لئے ایک موثر ذریعہ ہے۔ ہو سکتا ہے اللہ اس کے ذریعے مرد کو ایسی بھلائیوں سے نواز دے جس تک مرد کی پہنچ نہ ہو، بیوی خاوند کو جنت کے قریب کر دیتی ہے اس کی قسمت سے دنیا میں خدا مرد کو رزق اور خوشحالی سے نوازتا ہے۔

اس لئے خواتین کو چاہئے کہ وہ دین کے احکام اور تہذیب سیکھیں، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوں، ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ اچھی بیوی اور اچھی ماں ثابت ہو، خدا کی فرمانبردار بندی بن کر اپنے فرائض حسن و خوبی سے انجام دیں۔‘‘

حکمت و دانائی

* استاد کا حق کبھی فراموش نہ کرو۔

* انسان کی زبان اس کے دل کی ترجمان ہوتی ہے۔

* ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا مومن کی پہچان ہے۔

* جو مخلوق پر شفقت کرتاہے، خالق کائنات اس پر شفقت فرماتا ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔