Topics

مائی رابوؒ

دیبال پور حجرہ شاہ مقیم میں ایک گاؤں ’’مائی رابوؒ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ گاؤں کے ساتھ ساتھ واقع قبرستان میں مائی رابوؒ صاحبہ کا مزار ہے، برابر میں آپؒ کے مرشد حضرت صادقؒ شاہ کا مزار ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلے یہاں ایک بڑا شہر آباد تھا۔ اس شہر سے باہر جہاں قبرستان ہے ولی اللہ صادق شاہ صاحب نے اپنے مرشد کے حکم سے قیام کیا۔ آپ کی ذات میں ایسی کشش تھی کہ دور دراز سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

ایک متمول گھرانے کی عورت کو اولاد کی خواہش کشاں کشاں حضرت صادق شاہ صاحب کے پاس کھینچ لائی۔ حضرت صادق صاحب نے فرمایا:

’’بی بی تیرے مقدر میں اولاد نہیں ہے، پریشان ہونا چھوڑ دے۔‘‘

یہ سن کر عورت نے کہا اگر مقدر میں اولاد ہوتی تو آپ کے پاس کیوں آتی۔ آپ اللہ کی بارگاہ میں میرے لئے دعا کریں باقی جو اللہ کو منظور ہے میں اسی میں راضی ہوں۔

حضرت صادق شاہ ظفر نے یہ سن کر اللہ کے حضور دعا کی۔ کچھ لوگوں کو عورت کی شاہ صاحب سے عقیدت پر اعتراض ہوا اور وہ عورت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ ایک دفعہ جب وہ عورت آستانے کی صفائی میں مشغول تھی تو شہر کے کچھ لوگ وہاں آ گئے۔ انہوں نے شاہ صاحب سے کہا۔ آپ ایک نوجوان عورت کو یہاں کیوں آنے دیتے ہیں؟ حضرت شاہ صادق صاحب خاموش ہو گئے۔ لوگوں کی تنگ نظری سے عورت کو بہت تکلیف پہنچی۔ صادق شاہ صاحب بھی رنجیدہ ہوئے اور جلال کے عالم میں فرمایا:
’’جس نے رابو کا دل دکھایا وہ کبھی آباد نہیں رہ سکتا۔‘‘

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک زوردار دھماکہ اس شہر میں ہوا اور زلزلے نے زمین کی تہوں کو الٹ پلٹ کر دیا۔
صادق صاحب نے اس خاتون کا نام مائی رابو رکھا اور فرمایا:

’’اب یہ علاقہ تیرے نام سے مشہور ہو گیا۔‘‘

مرشد کے انتقال کے بعد بھی مائی رابوؒ خدمت خلق میں مصروف ہو گئیں۔ بعد از وصال بھی لوگ ان کے مزار پر حاضر ہوتے اور ان کی دعا سے شاد کام واپس جاتے۔ ایک صاحب بیان کرتے ہیں۔

میں نے مائی رابو کے مزار پر مراقبہ کیا کچھ دہی دیر گزری تھی کہ مائی صاحبہ جلوہ افروز ہوئیں، میں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے روشنی نکل کر میرے اوپر پڑ رہی ہے ، میں نے محسوس کیا کہ میرا جسم ہلکا ہوتا جا رہا ہے اور کشش ثقل کا احساس ختم ہو رہا ہے، یکایک آپ میری نظروں سے اوجھل ہو گئیں اور کیفیت ختم ہو گئی۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔