Topics

بی بی حورؒ

حضورﷺ اور اہل بیت کی محبت سے آپ کا قلب سرشار رہتا تھا۔ عشق رسولﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ رسول اللہﷺ کا تذکرہ سن کر دیر تک روتی رہتی تھیں، لوگ انہیں سیرت طیبہ ﷺپر درس کے لئے اپنے گھر بلاتے تھے، خواتین کی کثیر تعداد آپ کا درس سنتی تھی، حضورﷺ کے عشق نے آپ کو مستجاب الدعوات بنا دیا تھا۔

ایک مرتبہ ایک عورت آپ کے پاس روتی ہوئی آئی۔ آپ نے نہایت شفقت سے پوچھا کہ

’’کیا بات ہے؟‘‘

عورت نے کہا:

’’شادی کوپانچ سال ہو چکے ہیں مگر ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔‘‘

آپ کچھ دیر خاموش رہیں پھر فرمایا:

’’تیرے گھر اولاد ہو گی، بیٹے کا نام عبدالصمد رکھنا۔‘‘

کچھ عرصہ کے بعد وہ عورت آپ کے پاس خوشی خوشی آئی۔ اس نے کہا۔ اللہ نے مجھے خوشی کی بشارت دی ہے۔ بی بی حورؒ نے نہایت شفقت سے خاتون کے سرپر ہاتھ رکھا اور اسے مبارک باد دی۔

خاتون نے عرض کیا۔ آپ نے میرے ہونے والے بیٹے کا نام عبدالصمد رکھ دیا ہے۔ مجھے یہ نام بہت پسند ہے ۔آپ نے یہ نام کیوں تجویز کیا ہے؟ اس کے پیچھے کیا مصلحت ہے؟

حضرت بی بی حورؒ نے فرمایا:

’’حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے بچوں کے نام ایسے رکھو جو خوبصورت ہوں اور کانوں کو اچھے لگیں۔‘‘

نام کا ٹھپہ دراصل پیدائش سے بڑھاپے تک ایک دستاویز ہے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن نام نہیں بدلتا، نام کسی فرد کی تشخیص کا واحد ذریعہ ہے۔

جب کسی بچے کا نام رکھا جاتا ہے تو اس کے دماغ میں معنی کے اعتبار سے ایک پیٹرن (PATTERN) بن جاتا ہے۔ یہی پیٹرن شعوری زندگی کے لئے مشعل راہ بن جاتا ہے۔

سیدنا حضورﷺ کا ارشاد عالی مقام ہے:

’’بچوں کے نام خوبصورت، خوش پسند اور بامعنی رکھو تا کہ نام کی معنویت اور نام کے اثرات بچے کی آئندہ زندگی کو کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار کر دیں۔‘‘

نام کے انتخاب میں پاکباز اور باکردار بزرگوں کی اعانت اس لئے حاصل کی جاتی ہے کہ نام کے ساتھ نام رکھنے والے کا ذہن بھی منتقل ہوتا ہے۔

بی بی حورؒ ایک مرتبہ حج کرنے گئیں۔ روضۂ رسولﷺ پر سلام عرض کیا۔ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا کہ حضورﷺ نے ان کے سلام کا جواب دیا ہے۔

حکم و دانائی

کچھ گھاس کے پتوں میں اگی ہے مٹی

کچھ باغ کے پودوں میں دھلی ہے مٹی

کچھ رنگ برنگ پھول ہوئی ہے مٹی

کچھ تتلیاں بن بن کے اڑی ہے مٹی

(قلندر بابا اولیاءؒ )

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔